خبر دیتی تھیں جن کو بجلیاں وہ بے خبر نکلے
گورننس کی بہتری کیلئے ضروری ہے کہ تمام سرکاری محکموں اور اداروں میں انکے بجٹ کے مطابق رقوم انکی تجوری میں ٹرانسفر کردی جائیں۔ مثال کے طور پر ہر سکول اور کالج کو سالانہ رقم دے دی جائے‘ اسی رقم سے تنخواہیں‘ پنشن اور ریٹائر ہونیوالے ملازمین کو بقایاجات ادا ہوں۔ یوں اے جی آفس‘ ٹریژری سیکرٹریٹ ڈائریکٹر‘ ڈی پی آئی کے دفاتر‘ انشورنس اور بینولیٹ فنڈ کے دفاتر کے سالہا سال کے چکر ختم ہو جائیں گے۔ ہر پرنسپل خودمختار ہو‘ تمام ادائیگیاں اسکے اختیار میں ہوں۔ دفتر دفتر پھرنے کے بہانے متعلقہ کلرک چائے پانی مانگتا ہے۔ چیف سیکرٹری ایسی آسانیاں پیدا کرنے کا کیوں نہیں سوچتے۔ جب آڈٹ ہر سرکاری ادارے کا ہوتا ہے تو پھر الجھن کیا ہے۔ ریٹائر ہونیوالے ہر شخص کو اسکی ملازمت کی جگہ پر الوداعی دن کے موقع پر تمام تر رقوم کی ادائیگی کیوں ممکن نہیں ہو سکتی۔ ہر طرح کی مد کے فنڈز کالج ٹرانسفر کیوں نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح چھٹیوں کا اختیار بھی پرنسپل کے پاس ہو۔ ڈائریکٹر ڈی پی آئی جیسے دفاتر کے اخراجات سو فیصد غیرپیداواری ہیں۔ کالجوں سکولوں کیلئے حکم نامے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے براہ راست جاری ہو سکے ہیں۔ تبدیلی اس چیز کا نام ہے کہ پراسس کو چھوٹا اور آسان بنایا جائے۔ وراثت کے سرٹیفکیٹ کی حصولی میں ایوان عدل کی سیڑھیاں چڑھنے اترنے میں کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔ وراثت کی تفصیل نادرا کے شناختی کارڈ پر بھی درج ہو سکتی ہے کہ کارڈ ہولڈر کے کتنے حقیقی بہن بھائی اور بچے ہیں۔ کسی سرکاری ملازم کی وفات کے بعد کے درجنوں بکھیڑے متوفی کے ورثا ہی بھگتے ہیں۔ جوان بیوائیں دفتروں میں حالت عدت میں رل رہی ہوتی ہیں۔
2018ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کا 61 صفحات پر مشتمل منشور نے نئے پاکستان کی شاہراہ کا تعین کیا جس میں گورننس کی خامیوں‘ تیزی سے بڑھتے ہوئے قرضوں‘ بجلی کی قیمتوں اور خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کا ذکر تھا۔ منشور میں 46 بار اصلاحات کا ذکر کیا گیا۔ پولیس‘ ایف بی آر‘ تعلیم‘ جیل‘ قانون‘ خارجہ امور میں اصلاحات پر زور دیا گیا۔ منشور میں وعدوں اور یقین دہانیوں کی بھرمار ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اصلاحات کا نام و نشان تک نہیں۔ کوئی مصلح ہو تو اصلاحات کرے۔ حکومت نے آئی ایم ایف سے رکے ہوئے چھ ارب ڈالر کے فنڈز پروگرام کی بحالی کی خاطر منی بجٹ لانے کی تیاری کرلی ہے۔ ایف بی آر نے کارپوریٹ سیکٹر میں دیئے گئے دو سو ارب روپے کے ٹیکس استثنیٰ کو ختم کرنے پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔ اس خطیر رقم کا بڑا حصہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے پورا کیا جائیگا۔ جس کا آغاز بجلی کی قیمت میں سوا روپے فی یونٹ اضافے کے ساتھ کردیا گیا ہے۔ بجلی کے ٹیرف میں 25 سے 30 فیصد کا اضافہ متوقع ہے۔ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف جیسے عالمی ساہوکار ادارے جہاں ترقی پذیر ممالک کو اپنی شرائط پر قرض دے کر عملاً انکی معیشت گروی رکھ لیتے ہیں وہیں سود سمیت اپنے قرض بروقت اور یقینی واپسی کیلئے انہیں باقاعدہ ڈکٹیٹ بھی کرتے ہیں کہ کس طرح کس مد میں ٹیکسوں میں اضافہ کیا جائے۔ سبسڈی ختم کی جائے یا بجلی سمیت فلاں چیز کی قیمت میں اتنا اضافہ کیا جائے۔ کم از کم ڈیڑھ سو ارب روپے کا ٹیکس استثنیٰ واپس لینے یا ختم کرنے کی ہدایت آئی ایم ایف ہی کی ہے جس کیلئے حکومت کو یا تو صدارتی آرڈی ننس کا سہارا لینا ہوگا یا پھر موجودہ مالی سال کے دوسرے نصف میں یعنی جنوری سے جون کے درمیان نئے مالیاتی بل کے ذریعے منی بجٹ لانا ہوگا۔
آئی ایم ایف کے نمائندے پاکستان حکام سے پوچھتے رہے کہ سی پیک کے تحت چین کو کیا مراعات دی گئی ہیں اور اسکے پاکستانی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں تاہم انہیں یہ باور کرایا گیا ہے کہ چینی کمپنیوں کو دی گئی رعایت 25 سے تیس سال کیلئے ہے۔ جو باقاعدہ معاہدے کے تحت دی گئی ہے لہٰذا اسکی واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا البتہ بجلی بنانے والی کمپنیوں یعنی آئی پی پیز کو دیئے گئے ٹیکس استثنیٰ کی تیس سالہ مدت اس سال ختم ہو رہی ہے جس میں مزید توسیع نہیں کی جائیگی۔ آئی ایم ایف کا دبائو ہے کہ حکومت توانائی کے شعبے میں تین سو ارب روپے کے گردشی قرضے پر قابو پائے جس کیلئے صارفین کو سبسڈی دینے کی بجائے بجلی کی پیداوار پر آنیوالی پوری لاگت وصول کی جائے۔ اب تک کم و بیش چار مرتبہ کثیر زرمبادلہ صرف کرکے لاکھوں ٹن گندم درآمد کی جاچکی ہے اسکے باوجود مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتیں ایک نئے بحران کی کیفیت پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔ جنوبی پنجاب کی گندم کی فی من قیمت مختلف شہروں میں 2400 روپے کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی جس سے 15 کلو آٹے کا تھیلا ایک ہزار روپے میں مل رہا ہے۔ آئندہ دو ماہ میں 22 لاکھ ٹن مزید گندم وسطی ایشیائی ملکوں سے پاکستان پہنچ رہی ہے۔ ذخیرہ اندوزوں نے سرکاری نرخوں پر خرید کر ہزاروں من گندم ذخیرہ کی ہے۔ اسے اب اوپن مارکیٹ میں 900 روپے فی من منافع کے ساتھ کھلے عام فروخت کیا جارہا ہے۔ کسی ایک ذخیرہ اندوز کو ایٹنی ہورڈنگ ایکٹ کے تحت تین سال قید کی سزا نہیں ملی۔
چینی کی قیمت کو پھر پر لگ گئے۔ 90 سے سو روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔ ایک ماہ کے دوران گیارہ روپے فی کلو کا اضافہ ہوا ہے۔ یوٹیلٹی سٹورز پر غیرمعیاری چینی 68 روپے میں بیچی جا رہی ہے۔ گزشتہ سال چینی کا بحران پیدا ہوا اور قیمت 75 روپے کلو سے بڑھ کر 102 روپے تک پہنچ گئی۔ چینی برآمد کرنیوالا ملک تین لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے پر مجبور ہوا۔ سات آٹھ ماہ میں مافیا نے اربوں روپے کمالئے۔ نومبر دسمبر میں قیمت گر کر 74 روپے کی سطح پر آئی۔ 2021ء شروع ہوتے ہی شوگر ملوں نے ایکس مل ریٹ بڑھا کر 81 روپے کلو پر پہنچا دیا۔ بہت سی مارکیٹیں اور سٹورز 90 روپے کلو وصول کررہے ہیں۔ جنوری 2019ء میں چینی کی قیمت 38 روپے کلو تھی۔ ملوں کی کارٹلائزیشن (مافیا) کے سامنے حکومت واقعی بے بس ہے جسے سبزی منڈی کے آڑھیوں پر ہاتھ ڈالنا کسی کمشنر ڈپٹی کمشنر کے بس میں نہیں۔ قصابوں پر بھی کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ کبھی کبھار فوڈ اتھارٹی کے انسپکٹر دودھ سڑک پر بہا کر کارروائی پوری کرتے ہیں۔ انڈے بھی 20 روپے درجن ہوتے تھے‘ اب ایک انڈا 20 روپے کا ہے۔ کونسے پولٹری فارم پر چھاپہ مارا گیا۔ 2021ء آتے ہی پٹرولیم مصنوعات مزید مہنگی ہو گئی ہیں۔ ایل پی جی کی قیمت 148 روپے فی کلو مقرر کی گئی ہے۔ گھریلو سلنڈر 1741 روپے‘ کمرشل سلنڈر 6697 روپے کا ہو گیا ہے۔ ایل پی جی کی قیمت میں 16 روپے فی کلو اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی 2021ء میں معاشی ترقی کے امکانات کو معدوم کرنے جا رہی ہے۔