ظالمو! قاضی چلا گیا
یکم جنوری انیس سو چوہتر کی شام شمالی علاقوں میں زلزلے نے تباہی مچا دی ،شاہراہ ریشم پر بشام سے لے کر پتن تک تمام چھوٹی بڑی آبادیاں ملبے کے ڈھیڑ میں تبدیل ہوگئیں ۔ اس زلزلے کی کوریج کے لیے میں لاہور سے پہلے پشاور پہنچا اس سے آگے براستہ سوات اور شانگلہ ٹاپ عبور کر کے بشام پہنچنا تھا،۔ معلوم نہیں قاضی صاحب کو پشاور میری آمد کا کیسے علم ہوا ، میری ان سے کوئی جان پہچان نہیں تھی اور وہ مقامی جماعت کے امیر کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے ، جب میں پشاور ایئر پورٹ پر اترا تو لائونج میں کسی صاحب نے میرا نام لے کر مجھے پکارا غور سے دیکھا تو وہ ایک شناسا چہرہ تھا اور ان سے لاہور میں میل جول رہتا تھا ،انہوں نے مجھے پشاور کے کسی واجبی سے ہوٹل میں پہنچایا ، ہاتھ منہ دھو کر میں ابھی ہوٹل سے کھانا منگوانے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ اس نوجوان نے کہا کہ کھانا آپ کا قاضی حسین احمد کی طرف ہے وہاں چلتے ہیں ، قاضی صاحب نے انتہائی پر تکلف عشائیے کا اہتمام کر رکھا تھا ۔ میز پر ان گنت فواکھات چنے ہوئے تھے جو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھے اور گلاب سے چہرے والے بچے باربار کہہ رہے تھے انکل یہ کھائیں انکل یہ کھائیں ، یہ تھے سمیحہ راحیل قاضی اور آصف لقمان قاضی ۔ قاضی صاحب کا چہرہ گلنار تھا ،بالکل جوان راعنا، بات بات پر مسکراتے اور مجھے شاہراہ ریشم پر سفر کی صعوبتوں اور سہولتوں سے آگاہ کرتے رہے ، انہوں نے بتایا کہ زلزلہ زدہ علاقوں میں ہر جگہ جماعت کے امدادی کیمپ ہیں ،اس لیے آپ حوصلہ رکھیں آ پ کو کسی تکلیف کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ۔ یہ تھی میری قاضی حسین احمد سے پہلی ملاقات ، اگلے چار عشروں تک ان سے قدم قدم پر ملاقاتیں رہیں ، پہلی ملاقات سے ہی میرا یہ تاثر گہراہوگیا تھا کہ یہ نوجوان میزبان مہربان مستقبل کا ایک عظیم قومی رہنما ثابت ہوگا، ان کے لہجے میں متانت ، آنکھوں میں چمک اور گفتگو میں گہرائی ، اوائل جوانی میں جو شخص ان اوصاف کا حامل تھا وہ آگے چل کر لیڈر شپ کے عروج تک پہنچا ۔ مجھ سے صرف نو سال بڑے تھے لیکن بڑائی میں وہ مجھ سے صدیوں آگے نکل گئے ۔
میری ان سے آخری ملاقات دسمبر بارہ کے آخری ہفتے میں ہوئی میں نے ان کا ایک ٹی وی چینل کے لیے انٹر ویو ریکارڈ کیا انٹرویو کے بعد وہ پشاور کے لیے عازم سفر ہوگئے اور میں مرکز القادسیہ میں حافظ محمد سعید کی ایک میڈیا بریفنگ اور کھانے میں شرکت کے لیے چو برجی پہنچ گیا ، چند روز گزرے تھے کہ پشاور سے قاضی صاحب کی المناک وفات کی خبر ملی ، میرے انٹرویو اور ان کی وفات کے عرصے میں انہوں نے نہ کوئی اخباری بیان جاری کیااور نہ کسی دوسرے چینل کو انٹرویو دیا اس لحاظ سے قاضی صاحب سے میرا انٹرویو ان کی زندگی کا آخری انٹرویو ثابت ہوا ۔ قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے سربراہ بنے تو انہوں نے جماعت کو صحیح معنوں میں ایک سیاسی رنگ دیا ، آئی جے آئی کے سربراہ تو نواز شریف تھے لیکن اس اتحاد کی اصل باگ ڈور قاضی صاحب کے ہاتھوں میں تھی، نواز شریف عروج کے سفر کی طرف گامزن تھے اور قاضی حسین اپنے سیاسی کیریئر کے کلائی میکس پر تھے انہوں نے جہاد افغانستان میں جو کردار ادا کیا اس پر کئی انسائیکلوپیڈیا مرتب کیے جاسکتے ہیں ، میرے ساتھ آخری انٹرویو میں جب جہاد افغانستان میں اسامہ بن لادن کے کردار کا ذکر آیا تو قاضی حسین احمد نے مسکراتے ہوئے اور قدرے شرماتے ہوئے کہا کہ اسامہ یہاں کئی مرتبہ آئے اور جہاں آپ بیٹھے ہیں یہیں وہ براجمان ہوا کرتے تھے، سوویت روس نے افغانستان پر جس ننگی جارحیت کا مظاہرہ کیا تھا اس موقع پر پاکستان میں قاضی حسین احمد نہ ہوتے تو یقینا برصغیر کا ہی نہیں دنیا کا نقشہ الٹ پلٹ ہوچکا ہوتا، مجھے ان کے ساتھ کئی ملاقاتیں یاد آرہی ہیں ، مئی دو ہزار میں میں نیو یارک میں تھا کہ قاضی حسین احمد بھی وہاں پہنچے ، وہ بروکلن میں کسی بہت بڑے بلڈر کے ہاں مقیم تھے، کشمیر سے خبر آئی کہ حزب المجاہدیں کے مقامی کمانڈر نے سیز فائر کا اعلان کر دیا ہے قاضی صاحب نے اپنے موقف کے اظہار کے لیے ایک میڈیا بریفنگ بلائی ۔میں سردار نصر اللہ کے پاس مقیم تھا وہاں سے مجھے احمد وقاص ریاض اپنی گاڑی میں قاضی صاحب کے پاس لے گئے، طیش سے ان کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا ، انہوں نے گفتگو کا آغاز ہی غراتے ہوئے کیا کہ اس کمانڈر کو کس نے اتھارٹی دی ہے کہ وہ سیز فائر کا اعلان کرے۔ انہوں نے مٹھیاں بھینچتے ہوئے کہا کہ کشمیر کا جہاد ریاست کی آزادی تک جاری رہے گا ۔
اسی کے عشرے کے آخر میں وہ پی سی آئی اے کی ایک چھوٹی سی محفل میں شریک ہوئے ان کے ہاتھ میں دو تین فوٹو کاپی کے کاغذ تھے جو انہوں نے حاضرین میں تقسیم کیے یہ امریکی حکومت کا ایک بیان تھا کہ اب نیو ورلڈ آرڈر کا آغاز ہوگیا ہے اور امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور کے طور پر بالادستی قائم کرے گا ۔ قاضی صاحب نے نیو ورلڈ آرڈر کے مضمرات بیان کیے پچھلے چالیس برسوں میں ان کی ایک ایک بات درست ثابت ہوئی ہے کہ امریکہ کس حد تک اپنے آپ کو دنیا کا تھانیدار سمجھ بیٹھا ہے۔
مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ قاضی صاحب کی بے پناہ توانائیوں کو پنکچر کرنے کے لیے محمد علی نامی ایک نو جوان نے ڈیوٹی سنبھالی اس نے نعرہ تو لگایا تھا کہ ظالمو! قاضی آرہا ہے مگر آج محمد علی سے زیادہ کون مطمئن ہوگا کہ نعرہ لگ رہا ہے: ظالمو! قاضی چلا گیا۔