کرونا وبا: 2020 ایک جائزہ
ہمارے دو پڑوسی ممالک میں وائرس تیزی سے پھیل رہا تھااور روزانہ بڑی تعداد میںکیسز رپورٹ ہو رہے تھے۔ 30 جنوری کو جب عالمی ادارہ صحت نے کرونا وبا کوایک عالمی ایمر جنسی قرار دیا اس وقت تک ہم ایئر پورٹس پر تمام مسافروں کی سکریننگ کا نظام اور مشتبہ اور مصدقہ مریضوں کو علیحدہ رکھنے کا نظام بنا چکے تھے۔ 12 جنوری کو جب پنجاب میں میڈیکل ایمرجنسی کا باقاعدہ نفاذ کیا گیا عین اسی دن وائرس کو اس کا موجودہ نام SARS-COV2 دیا گیا۔ ہم نے فوری طور پر پی کے ایل آئی لاہور، رجب طیب اردگان ہسپتال مظفر گڑھ اور راولپنڈی انسٹیٹیوٹ میں کرونا سے متعلقہ خصوصی انتظامات کئے ۔ صوبہ کے تمام ہسپتالوں کے لیے الرٹ جاری ہونے کے علاوہ ونٹیلیٹرز، آکسیجن اور ڈاکٹرز کے لیے خصوصی حفاظتی سامان کی خریداری کے لیے فوری طور پر خریداری کے عمل کا آغازکر دیا گیا۔
مارچ کے تیسرے ہفتے تک اٹلی کے علاقے لومبارڈی میں ہزاروں اموات نے تمام دنیا میں سوگ، حزن والم اور خوف کی فضا پیدا کر دی تھی۔ اگلے چند ہفتوں میں سپین فرانس اور بلجیم میں بھی تیزی سے اموات میں اضافہ ہوا۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے نظام صحت اس وبا کا دبائو برداشت نہیں کر پا رہے تھے۔ وبا کے ابتدائی دنوں میں میری کئی راتوں کی بے خوابی کا سبب یہ خوف تھا کہ خدانخواستہ اگر کیسز کی تعداد قابو سے باہرہوگئی اورتمام ہسپتال بھر گئے تو کیا ہو گا۔ پاکستان کا پہلا کیس 26فروری کو کراچی سے اور دوسرا اسلام آبادسے رپورٹ ہوا۔ دونوں افراد ایران سے واپس آئے تھے۔ ابتدائی کیسز کی اکثریت ایران سے واپس آنے والوں کی تھی۔ کچھ کیسز شام اور کچھ برطانیہ سے آنے والے لوگ تھے۔ جب ہم نے لیبارٹری سے وائرس کا جنیاتی تجزیہ کیا تو پتہ چلا مقامی مریضوں میں سے نوے فی صد کاتعلق ایران میں پائے جانے والے وائرس سے تھا۔ دنیا میں اس وقت مشتبہ اور کنفرم مریضوں کو قرنطینہ میں رکھنے کی پالیسی نافذتھی تاکہ عام آبادی میں اس وائرس کو پھیلنے سے روکا جائے۔ سو ہم نے فوری طور پر لاہور، ملتان، ڈیرہ غازی خان اور فیصل آباد کے علاوہ ملتان اور دیگر شہروں میں ایران سے آنے والے زائرین کے لیے فوری طور پر قرنطینہ انتظامات کئے ۔تفتان سے آنے والے زائرین کو ملتان انڈسٹریل اسٹیٹ ، اور فیصل آباد زرعی یونیورسٹی میں رکھنے کے علاوہ دیگر مقامات پر رکھا گیا۔
پنجاب میں پہلا کیس 15 مارچ کو رپورٹ ہوا ۔گویاپہلے ملکی کیس اور پہلے پنجاب کے کیس میں تقریبا تین ہفتے کا وقفہ تھا اور اس قیمتی وقت کے دوران ہمیں پنجاب میں تیاریاں مکمل کرنے کا موقع ملا۔ رائے ونڈ میں 10 مارچ کو ہونے والے تبلیغی اجتماع کے شرکا ء کوقرنطینہ میں رکھنے کے انتظامات اسی وقفہ کے دوران کیے گئے کام کی بدولت ممکن ہوئے۔ منتظمین نے ہماری بار بار کی درخواست پر کان نہیں دھرے اور اجتماع کرنے پر مصر رہے۔ یہ تقریباً اسی ہزار کا اجتماع تھا جس میں چالیس سے زائد ممالک سے لوگ شریک ہوئے۔ وائرس کے پھیلاؤ میں عوامی اجتماعات کے کردار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ8 اپریل تک پنجاب میں 539 کیس رپورٹ ہوئے جن میں سے 404 کا تعلق صرف اسی ایک اجتما ع سے تھا۔ ان نتائج کی روشنی میں ہمیں نہ صرف رائے ونڈ کے پورے علاقے کو بند کرنا پڑابلکہ پورے پنجاب سے اجتماع میں شامل شرکا ء کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر دس ہزار سے زائد لوگوں کو فوری قرنطینہ کر کے ان کے ٹیسٹ کرنے پڑے۔ یہاں تک کہ ایک دوست افریقی ملک سے اجتماع میں شامل پچاس خواتین کا ٹیسٹ مثبت آیا ۔ان سب کو قصور کے ایک سنٹر میںرکھا گیا۔
مارچ اور اپریل کے عرصہ میں عالمی صورتحال سنگین سے سنگین تر شکل اختیار کرگئی۔ 21 مارچ کو صرف اٹلی میں 6557 کیسز رپورٹ ہوئے اور روزانہ اموات ایک ہزار کے قریب جا پہنچیں ۔بری خبر یہ تھی کہ ہسپتالوں کا عملہ متاثر ہو رہا تھا۔ اس اثنا میں پنجاب کے کیسز میں بھی بتدریج اضافہ ہونا شروع ہو گیا تھا۔ ماہ مارچ کے آخری دن پنجاب کے کیسز 708تک جا پہنچے تھے۔
اس صورتحال میں ہمارے پاس غلطی کی گنجائش بالکل نہیں تھی۔ صوبہ بھر سے تکنیکی ماہرین پر مشتمل کرونا ایکسپرٹ ایڈوائزری گروپ تشکیل دیا گیا جس نے کیس مینجمنٹ پر الگورتھم بنانے سے اپنے کام کا باقاعدہ آغاز کیا۔ فوری طور محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کئیر میں جدید آلات سے مزین اور بہترین ماہرین کی ٹیم پرمشتمل کرونا مانیٹرنگ یونٹ بھی قائم کیا گیا ۔ اس یونٹ میں مشتبہ اور کنفرم مریضوں کی رجسٹریشن کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ مریضوں کے لیے ایک خصوصی ٹریس، ٹریک اور کورانٹین یونٹ نے بھی کام شروع کر دیا۔ کرونا مانیٹرنگ یونٹ نے مرکزی پلیٹ فارم کے طور پر کام شروع کیا اور اس کے ذریعے رشتہ داروں اور قریبی لوگوں کے ٹیسٹس، ہسپتالوں میں داخلے سے لیکر اعدادوشمار کا تجزیہ اور تکنیکی ہدایات جاری کرنے جیسے کام شروع کیے گئے۔ (ختم شد)