اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی تک ترقی ممکن نہیں، پرلونشل فنانس کمشن بنایا جائے: مصطفے کمال
لاہور(سیف اللہ سپرا)پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین سید مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ عوام میرا ساتھ دیں ہم عوام کو حکمران بنائیں گے۔ ایسا نظام لائیں گے جس میں گلی محلے کے مسائل حل کرنے کے اختیارات اور وسائل مقامی منتخب نمائندے کے پاس موجود ہوں۔ جب بھی حکمرانوں کی جانب سے بلدیاتی حکومتوں کو وسائل یا اختیارات دیئے گئے تو وہ کھلے دل کے ساتھ عوامی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے نہیں دیئے گئے بلکہ اس میں سیاسی مفادات ہی زیادہ عزیز رہے جس کی وجہ سے عوام کو حقیقی جمہوریت نصیب نہیں ہوئی، کوئی ہمیں روٹی، کپڑا یا مکان کیوں دے ہم کوئی بھکاری قوم نہیں خود کما کر بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ ہمیں عزت، انصاف اور اختیار نچلی ترین سطح پر ملنا چاہیے تاکہ ہم اپنے مسائل خود حل کر سکیں تا کہ کوئی ہمارے ہی پیسوں سے ہمیں ہی جھوٹے خواب نہ دکھا سکے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے نمائندہ نوائے وقت کے ساتھ خصوصی گفتگو کے دوران کیا۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہمیں سب سے پہلے موثر بلدیاتی نظام کے لیے ڈسٹرکٹ کیڈر بنانا ہوگا تاکہ منتخب عوامی نمائندوں کو کام کرنے اور نہ کرنے والے افسران کی سزا اور جزا کا اختیار ہو۔ دوسرے نمبر پر آئین میں بلدیاتی حکومتوں کی ذمہ داریوں اور وسائل کا تعین ہونا چاہیے تاکہ ہر آنے والی حکومت آئین میں لکھی بلدیاتی حکومتوں سے متعلق چار لائنوں کی من مانی تشریح نہ کرسکیں۔ نیز عام عوام میں ملک کے وسائل اور مسائل میں شرکت اور احساس ذمہ داری بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک وزیراعظم اور چار وزرائے اعلیٰ تمام وسائل پر قابض ہیں، وزیر اعلی کی صوابدید پر ہے کہ وہ کسی ڈسٹرکٹ کو دو ارب دیدیں اور کسی ڈسٹرکٹ کو دو روپے بھی نہ دیں۔اس صورتحال سے تعصب بڑھتا ہے اور عوام بد دل ہوتے ہیں۔ اس لیے فیڈرل فنانس کمیشن کے طرز پر پروونشل فنانس کمیشن کا قیام ناگزیر ہے کیونکہ جب تک اختیارات اور وسائل نچلی سطح پر مکمل طور پر منتقل نہیں ہو جاتے نہ صرف یہ کہ ملک ترقی نہیں کر سکتا کراچی کی غلط مردم شْماری کو منظور کرکے عوام میں احساس محرومی کو فروغ دیا جا رہا ہے اور حکومت لوگوں کو دہشتگرد بنانے کا راستہ ہموار کررہی ہے۔ کراچی سب کا ہے، اب سب کراچی کے بنیں۔ کراچی پر ظلم کیخلاف احتجاج ہر شہری کا فرض ہے۔ ہم نے غلط مردم شْماری کے خلاف چیف جسٹس آف پاکستان کو نوٹس لینے کیلئے خط لکھا ہے، اٹھارویں ترمیم سے صوبے کے وزیراعلیٰ خود مختار ہو گئے، انہوں نے وفاق سے بھی اختیارات لے لیے اور نچلی سطح کے اختیارات بھی اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔ اگر صوبے کے حکمران اٹھارویں ترمیم کو بچانا چاہتے ہیں تو عام آدمی کو بااختیار بنا دیں،عمران خان اگر واقعی موروثی سیاست کے خاتمے کے لیے مخلص ہیں تو نئی قیادت پیدا کریں جو صرف بلدیاتی حکومتوں کے ذریعے ہوگی۔ سید مصطفیٰ کمال نے وزیراعظم عمران خان کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ مردم شْماری متنازعہ رہنے دیں اس پر مہر ثبت نہ کریں، بلدیاتی انتخابات بھی ویسے ہی کرائیں جیسے عام انتخابات کرائے گئے تھے۔ اس کیلئے غلط مردم شْماری کو بغیر آڈٹ کے حتمی تصور کرنے کی ضرورت نہیں۔ ملک بھر میں بلدیاتی نظام کو غیر فعال کر دیا گیا، پنجاب کے بلدیاتی نمائندوں کو ڈھائی سال قبل ہی بیک جنبش قلم گھر بھیج دیا گیا۔ نواز شریف نے خود کو نکالے جانے پر احتجاج کیا لیکن کبھی یہ نہیں پوچھا کہ ان بلدیاتی نمائندوں کو کیوں نکالا جس سے عوام کو فائدہ تھا۔وفاقی کابینہ کی جانب سے متنازع مردم شْماری کی منظوری کے خلاف پاک سر زمین پارٹی نے آج 17 جنوری بروز اتوار احتجاجی ریلی اور مظاہرے کا اعلان کردیا جو دوپہر 2 بجے نرسری، شاہراہ فیصل سے شروع ہوکر کراچی پریس کلب پہنچ کر احتجاجی مظاہرے میں تبدیل ہو جائے گی۔ ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ملک کو نئے سوشل کانٹریکٹ کی ضرورت ہے۔حکومت عوامی فلاح کا کوئی کام کررہی ہے اور نہ اپوزیشن کے پاس عوامی مسائل کے حل کا کوئی فارمولا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عوام حکومت اور اپوزیشن سے مایوس ہونے کے علاوہ اداروں سے مایوس ہورہے ہیں۔ خراب حالات کی دلدل سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ پاکستان میں گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کے ذریعے ایک نیا ریاستی معاہدہ کیا جائے۔ جس میں حکومت، اپوزیشن، تمام سیاسی جماعتیں، عدلیہ، میڈیا، فوج اور حساس ادارے شریک ہوں اور مفاہمتی طرزِ عمل کو اپناتے ہوئے بالترتیب 10، 20 اور 50 سالہ اہداف متعین کیے جائیں اور ان اہداف کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام سیاسی جماعتیں اپنا انتخابی منشور اور لائحہ عمل پیش کر کے عوام کا مینڈیٹ حاصل کریں۔ ہم سے یہ کام لیا کہ ہم نے نفرت اور تعصب کی سیاست کو ہمیشہ کے لیے دفن کردیا، کراچی جیسے شہر میں لاشیں گرنا بند ہوگئیں، شہداء قبرستان میں تالے لگ گئے، لوگ اپنے گھروں میں سونے لگے، آج مہاجر قوم کو راء سے نہیں جوڑاجاتا۔ قوم نے دیکھ لیا کہ ہمارے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں، جہاں چار سال میں لوگوں کو سیاسی جماعتوں کا نام تک یاد نہیں ہوتا وہاں آج پی ایس پی ہر پاکستان کے ہر گھر میں موجود ہے۔ کیونکہ ہم دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر سیاست نہیں کر رہے بلکہ ہمارے کارکنان اور عہدے داران روز عوام کے درمیان ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے کراچی میں وہ مناظر دیکھے ہیں کہ نوجوانوں کی لاشیں اٹھانے والا کوئی نہیں تھا تو جنازے خواتین نے پڑھائے۔ تین لاشیں موجود تھیں، بچے پوچھ رہے تھے کہ میرے والد کا جنازہ کون سا ہے انہوں نے کہا کہ مصطفیٰ کمال جب سے آیا مہاجروں کے بچے مرنا بند ہوگئے۔ آج ماؤں کے بچے ان کے ساتھ رہتے ہیں، کسی کو خوف نہیں کہ اس کا بچہ مصطفی کمال کے ساتھ گیا تو اسے کوئی نقصان ہوگا اور مصطفی کمال اپنی انا کے لیے کسی کے بچے قربان نہیں کریگا۔ انہوں نے کہا مورخ لکھے گا کراچی میں ظلم کا دور دورہ تھاکراچی کی خواتین نے ظلم کی تاریکی میں روشنی کی شمع جلائی۔ انتخابات سے قبل پھر مہاجر کارڈ استعمال کیا جائے گا۔