جعلی مقابلے میں 3 نوجوانوں کی شہادت، لواحقین سراپا احتجاج،تحقیقات میتوں کی واپسی کا مطالبہ
سری نگر(کے پی آئی) سری نگر میں30 دسمبر2020 کو جعلی مقابلے میںشہید ہونیوالے تین کشمیری نوجوانوں کے لواحقین نے بچوں کے قتل کی تحقیقات کیلئے خصوصی تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کا مطالبہ کیا ہے ۔ تین کشمیری نوجوانوں اطہر مشتاق ، اعجاز احمد اور زبیر احمد کو بھارتی فوجیوںنے 30 دسمبر کو سرینگر کے علاقے لاوے پورہ میں ایک جعلی مقابلے میں شہیدکردیا تھا۔تین کشمیری نوجوانوں کے لواحقین نے سرینگر میں احتجاج کیا ہے۔ شہید نوجوان کے اہل خانہ نے قابض انتظامیہ سے جعلی مقابلے پر اپنی خاموشی توڑنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ یا تو وہ ثابت کریں کہ ان کے بچے "عسکریت پسند" تھے یا پھر انکی میتوںکو انہیں واپس کیا جائے ۔ کے پی آئی کے مطابق اطہر مشتاق کے والد مشتاق وانی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس معاملے پر انتظامیہ کی خاموشی پر سوال اٹھایا۔انہوںنے کہاکہ اطہر کے قتل کو دو ہفتے گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک کسی قسم کی کوئی تحقیقات کرانے کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔انہوںنے مزید کہا کہ انتظامیہ ہمارے بچوںکو عسکریت پسند قراردینے کا اپنا دعوی ثابت کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔زبیر احمد کے اہلخانہ نے میڈیا کو بتایا کہ اگر کسی بھی طرح سے حکام ان کے بیٹے کو "عسکریت پسند" ثابت کردیتے تو ہم یہ مطالبہ نہ کرتے ۔تاہم انہوں نے کہاکہ اگر انتظامیہ اس کے خلاف کوئی بھی شواہد حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے اس لئے اب انہیں انکے بچے کی میت واپس کی جانی چاہیے ۔اعجاز احمد کے والد محمد مقبول نے بھی اپنے بیٹے کی میت واپس کئے جانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ اگر ان کے بچے واقعی مجاہد تنظیموںکے کارکن تھے تو انکے خلاف کوئی نہ کوئی مقدمہ ضرور درج ہونا چاہیے تھا تاہم انہوںنے کہاکہ جعلی مقابلے میں شہید کئے گئے تینوں نوجوان بے گناہ تھے اور انہوںنے اس واقعہ کی تحقیقات کیلئے خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ۔ کل جماعتی حریت کانفرنس (ع) نے بھارتی جیلوں میں قید محمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، آسیہ اندرابی ، ایڈوکیٹ شاہد الاسلام، الطاف احمد شاہ اور دوسرے کشمیری رہنماوںکی مسلسل حراست پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ حریت کانفرنس نے کہا ہے کہ ان قائدین کو جرم بے گناہی کی پاداش میں جیل میں رکھا گیا ہے اور آج تک ان کے خلاف کوئی بھی جرم ثابت نہیں کیا جاسکا ۔ ترجمان کل جماعتی حریت کانفرنس (ع) نے ایک بیان میںسیاسی اورسماجی کارکن سرجان برکاتی کی رہائی کے بعد گزشتہ روزدوبارہ گرفتاری کوبوکھلاہٹ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف شدیدردعمل کااظہار کیا ہے ۔کے پی آئی کے مطابق ترجمان نے جموںوکشمیر میں بلا جواز گرفتاریوں کی تازہ لہر کو غیر جمہوری اور انتقام گیری پر مبنی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ۔ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ طاقت کے بل پر جموںوکشمیر میںبنیادی انسانی حقوق کی پامالیوںکا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہے ،اور 5 اگست2019 کے دوران اور اس سے پہلے گرفتار کئے گئے سینکڑوں کشمیری نوجوانوں، معزز شہریوں ، سیاسی کارکنوں اور سیاسی رہنمائوں کو جیلوں اور گھروں میں نظر بند رکھا گیا ہے جو حد درجہ افسوسناک اور باعث تشویش ہے اور انسانی حقوق کی تنظیموں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی انتظامیہ نے نام نہاد نئی میڈیا پالیسی کے تحت اخبارات کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے ۔ پہلے مرحلے میںدس اخبارات کے لیے اشتہارات کی فراہمی کا عمل روک دیا گیا ہے جبکہ آٹھ اخباروں کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں ۔کے پی آئی کے مطابق جوائنٹ ڈائریکٹر انفارمیشن نے دعوی کیا ہے کہ یہ اخبارات حکومتی پالیسی کی پیروی نہیں کر رہے ہیں ۔نیویارک میں قائم انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے مقبوضہ کشمیر میں جون2020 سے جاری نئی میڈیا پالیسی پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ نے اعتراف کیا ہے کہ 2020 میں635 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ۔ انہوں نے دعوی کیا کہ گرفتار ہونے والے 635 فراد حریت پسندوں کے ان گراونڈ ورکر (OGWS )تھے۔ان میں سے 56 کو پی ایس اے کے تحت جیل بھیجا گیا ہے ۔ کے پی آئی کے مطابق میڈیا سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ اس دوران 100کارروائیوں میں225 حریت پسند مارے گئے ۔2021 میں اب بھی270حریت پسند متحرک ہیں۔ بھارتی اخبار کے مطابق سال 2019 میں صرف 153 حریت پسند مارے گئے تھے۔ سال 2020 کے دوران 47 حریت پسندکو زندہ گرفتار کیا گیا جبکہ سال 2019 کے دوران 43 حریت پسندوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔