گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
کہا جاتا ہے کہ جمہوریت بادشاہت سے بہتر ہے مگر بادی النظر میں دیکھا جائے تو پرانے وقت اچھے تھے‘ بادشاہ کہیں نہ کہیں عذاب الٰہ اور حساب الٰہی سے خوفزدہ رہتے اور اسی وجہ سے بعض اوقات وہ روپ بدل کر ریاست کا گشت کیا کرتے تھے مگر پھر جیسے جیسے وقت کا پہیہ گھوما شاہوں کے بھی دماغ گھومنے لگے ‘ کرسی اور اقتدار کا نشہ سر چڑھ کر بولنے لگا ۔ بادشاہ عوام الناس کی حالت وزیروں ،مشیروں اور درباریوں سے معلوم کرنے اوراپنی اصلاح انکی آشیر باد سے کرنے لگے
کہتے ہیں کہ قدیم زمانوں میں ایسا ہی ایک سہل پسند بادشاہ تھا‘ جس کے دور میں امن و سلامتی اور خوشحالی کا دور دورہ تھا کہ راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا مگر جب چین و سکون حد سے بڑھا تو بادشاہ نے اپنا زیادہ وقت عیش پسندی ‘شکار اور محفل آرائی میں گزارنا شروع کر دیا ‘یہ دستور دنیا ہے کہ گمراہ راستوں کے مسافروں کو وقتی لٹیرے بطور ہمسفر مل جاتے ہیں جو بظاہر دوستانہ رکھتے ہیں مگر اندر سے جڑیں کاٹتے رہتے ہیں تاکہ بچا کھچا سمیٹ سکیں ‘یوں بادشاہ کے احباب میں ایسے امراء و رئوسا شامل ہوئے جو کہ ایسی ہی راہوں پر گامزن تھے ‘ بادشاہ کے طرز حکمرانی اور ملکی خوشحالی کے گیت گاتے نہیں تھکتے تھے اور بادشاہ سے یہی کہتے رہتے تھے کہ آپ کو پریشانی کی کیا ضرورت ہے‘ آپکی ریاست بے مثل ہے‘ جناب ! اب آپ زیست کی رعنائیوں اور خوبصورتیوں کا مزا لیں کیونکہ زندگی ایک بار ہی ملتی ہے‘ نتیجتاً بادشاہ غافل ہوا اور ریاست افراتفری کا شکار ہوگئی ‘وہی امراء و رئوسا عوام الناس کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے لگے اور غریبوں کی اراضی اور مال و دولت‘ طاقت کے زور پر ہڑپنے لگے مگر بادشاہ کے قریبی سنگی ہونے کیوجہ سے انھیں کوئی کچھ نہ کہتا اور بادشاہ کو اتنی فرصت نہیں تھی کہ وہ کسی غریب کی فریاد سنے بلکہ اگر کوئی بھولا بھٹکا آبھی جاتا تو دربان باہر سے ہی بھگا دیتے ‘اگر کوئی زیادہ شور مچاتا تو اسے مجرم بنا کر کال کوٹھری میں ڈال دیا جاتا ۔رفتہ رفتہ یہ سہل پسندی اور عیش پرستی ریاست کو دیمک کی طرح چاٹنے لگی ‘بادشاہ کا ایک خدا ترس اور مخلص وزیر بھی تھا جو کہ ان حالات سے بہت پریشان تھا وہ ہمیشہ بادشاہ کو ڈھکے چھپے الفاظ میں روکتا تھا کہ عالم پناہ! آپ ایسے مصاحبوں سے دور رہیں جو آپکو جہنم کا ایندھن بنا رہے ہیں مگر بادشاہ مست مئے پندار رہا‘جب ریاست کا یہ زوال پذیر حشر دیکھا تو وزیر کو ایک ترکیب سوجھی اور بادشاہ سے کہا : عالی جاہ !آئیں آج گشت کو چلیں تاکہ پتہ چلے کہ رعایا جناب کے اقدام سے کتنی خوش ہے ؟‘‘ جب بادشاہ اور وزیر رات کو بھیس بدل کر ریاست کا گشت کر رہے تھے تو دونوں کا گزر ایک قصاب کی جھونپڑی سے ہوا ‘قصاب حقہ پی رہا تھا بادشاہ نے اس سے پوچھا : بھائی ! سنا ہے کہ تمھارا بادشاہ بہت اچھا ہے تو کیا واقعی تم اسکے راج میں بہت خوش ہو یا محض افواہ ہے ؟‘‘قصاب نے فوراً جواب دیا ’’ہاں جی !کیا بات ہے ہمارے بادشاہ کی اسکے راج میں ہر طرف امن و چین ہے ، لوگ عیش کر رہے ہیں ،ہمارا ہر دن عید اور ہر شب ‘شبِ برات ہے ۔‘‘بادشاہ اور وزیر یہ سن کر آگے بڑھ گئے اور بادشاہ نے وزیر سے فخریہ لہجے میں کہا :اے میرے عقلمند مصاحب ! ’’تم نے دیکھا کہ عوام ہم سے کتنے خوش ہیں مگر تم فکر مند تھے ‘‘وزیر نے کہا : بے شک عالم پناہ! آپ کا اقبال بلند ہو ‘‘ چند دن بعد وزیر بادشاہ کو پھر گشت پر ساتھ لے آیا اور ان کا گزر پھر اسی مقام سے ہوا‘بادشاہ نے قصاب سے پوچھا : بھائی ! کیسے ہو ؟قصاب نے چھوٹتے ہی کہا :’’ اجی کیا حال پوچھتے ہو ،ہر طرف تباہی ہی تباہی ہے ،موت سر پر کھڑی ہے ،اس بادشاہ کے عہد میں ہر کوئی ناخوش اور دکھی ہے ،وزیر و مشیر بھی لٹیرے ہیں ، ستیاناس ہو ان کا اور گالیاں دینے لگا ‘‘بادشاہ ششدر رہ گیا‘ ابھی چند دن پہلے تو یہ اپنے بادشاہ کی تعریف کر رہا تھا‘ اب ایسا کیاہوا کہ اتنا دکھی ہے بلکہ کہہ رہا ہے کہ آئو تمہیںلوگوں کو روتا اور بھوک سے مرتا دکھائو ں‘ جہاں تک اس کی معلومات کا سوال تھا تو اسے ایسی کوئی مستند اطلاع نہیں تھی بادشاہ نے اس سے پوچھا : بھائی! آخر کیا ہوا‘ مگر وہ کچھ بتائے بغیر بادشاہ کو برا بھلا کہتا رہا ‘بادشاہ پریشان ہوا اور وزیر کو ایک طرف بلا کر پوچھا کہ اسکے ساتھ کیا ہوا ہے اور تمھیں اسکی خبر کیوں نہ ہوئی ؟وزیر نے جیب سے ایک تھیلی نکالی اور کہا : عالی جاہ ! اس میں سو اشرفیاں ہیں جو دراصل میں نے دو دن پہلے اسکی جھونپڑی سے چوری کروا لی تھیں‘ جب تک اسکے پاس مال تھا‘ خوشحال تھا‘ اس کیلئے سبھی لوگ خوشحال تھے اور جو پریشان تھے وہ جھوٹے تھے کیونکہ یہ سبھی کو اپنی طرح خوشحال اور سکھی سمجھتا تھا بائیں وجہ درباریوں اور آپکے مصاحبوں کی طرف سے ہونے والے ظلم و ستم کو بھی من گھڑت کہانیاں سمجھتا تھا‘ اب وہ اپنی دولت لٹ جانے کے بعد غمگین‘ بد حال اورعہدے داران کا محتاج ہوچکا ہے یہی وجہ ہے کہ اسے ہر طرف تباہی و بربادی نظر آرہی ہے لہذا عالم پناہ ! میں آپکے گوش گزار یہ کرنا چاہتا ہوں کہ ایک فرد اپنی خوشحالی اور فراوانی کے تناظر میں دوسروں کو خوش دیکھتا ہے جبکہ حکمرانوں اور بادشاہوں کو اپنی رعایا کا دکھ سمجھنے کیلئے اپنی ذات اور اپنی بساط سے آگے نکل کر دور تک سوچنا اور حالات کا جائزہ لینا چاہیے اور خصوصی انتظامات کرنے چاہیے کیونکہ ’’سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں ۔۔گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں ‘‘ لہذا ہمیں اپنے طرزِ حکمرانی پر توجہ دینی چاہیے تاکہ کوئی بھی دکھی یا نالاں نہ ہو اور اگر خلق خدا کی فلاح و بہبود کے بارے میں آج نہ سوچا گیا تو پھر یہ شہرت اور حکومت بھی نہ رہے گی کسی نے خوب کہا ہے : شہرت کی بلندی بھی پل بھر کا تماشا ہے ۔۔جس ڈال پہ بیٹھے ہو وہ ٹوٹ بھی سکتی ہے ۔