نیب ارکان پارلیمنٹ کا احترام کرتا ہے ، سلیم مانڈوی والا کیس میں انصاف ہوگا:چیئرمین
اسلام آباد (نامہ نگار) نیب نے واضح کیا ہے کہ بعض میڈیا رپورٹس میں قومی احتساب بیورو (نیب) بطور ادارہ اور کارکردگی کے حوالہ سے یکطرفہ تاثر پیش کر کے نیب کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان میڈیا رپورٹس میں جو سیاق و سباق استعمال ہوا ہے اس کی بنیاد دانستہ قیاس آرائی پر مبنی ہے۔ نیب اعلامیے کے مطابق نیب نے بار بار وضاحت اور اعلان کیا ہے کہ اس کی کسی سیاسی جماعت، فرد یا گروہ سے کوئی وابستگی نہیں ہے اور اس کی وابستگی صرف ریاست پاکستان سے ہے۔ میڈیاکو حقائق کا پتہ لگانا چاہئے اور گمراہ کن اور بے بنیاد الزامات سے گریز کرنا چاہئے۔ مزید برآں نیب نے واضح کیا ہے کہ کڈنی ہل ایریا کی اراضی پبلک پارکس کے لئے مختص تھی ۔ کے ڈی اے کے کے آرٹیکل 45کے تحت گزٹ نوٹیفکیشن جاری کیا۔7 نومبر1966ء اور 5 ستمبر 1969ء کے حکمنامہ کے تحت کے ڈی اے اسکیم نمبر 32فالکنامہ کے اسے پارک کے طور پر تفریحی علاقہ بنانے کی تجویز پیش کی۔1973 ء میں اوورسیز سوسائٹی نے کراچی کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹیز یونین سے کڈنی ہل کی اراضی کا انتظام حاصل کیا جو یونین کی زمین کا حصہ نہیں تھا اور وزارت ہائوسنگ اینڈ ورکس سے لے آو ٹ پلان کی منظوری بھی حاصل ہوگئی تھی جو 1979ء میں معطل کردی گئی تھی اور بعد میں 1984 ء میں منسوخ کردی گئی تھی۔ 1990ء کے بعد سے سندھ ہائیکورٹ میں کے ڈی اے /کے ایم سی اور سوسائٹی کے مابین کڈنی ہل کی اراضی کی سہولت یا رہائشی اراضی کی حیثیت کا کیس چلتا رہا۔ آخر کارسی ایم اے نمبر592-K/2018.کے فیصلہ میں سپریم کورٹ نے اس کی سہولت ہونے کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ ایم اعجاز ہارون نے اوورسیز سوسائٹی کے 12 پلاٹوں کو مختلف ٹھیکیداروں کے نام پر غیر قانونی الاٹمنٹ پرانی تاریخوں میں کی اور اوپن ٹرانسفر لیٹرکے ذریعے ان کی ملکیت کا انتظام کیا۔ بعد میں سلیم مانڈوی والا اور اعجاز ہارون نے جان بوجھ کر اور اپنی مرضی سے ، اومنی گروپ کے عبد الغنی مجید کے ساتھ جائیداد کا معاہدہ کیا اوراے ون انٹرنیشنل اور لکی انٹرنیشنل کے نام سے جعلی بنک اکائونٹس سے 144ملین روپے وصول کیے۔ ایم اعجاز ہارون اور سلیم مانڈی والا کا جرم میں حصہ بالترتیب 80ملین روپے اور 64.5ملین روپے ہے۔ مذکورہ مشکوک معاہدے میں سے ، سلیم مانڈوی والا نے سودے کو برقرار رکھا جو کسی بھی طرح کی املاک کے معاہدے میں ناممکن ہونے کے بجائے انتہائی غیر معمولی ہے۔ جرم میں استعمال ہونے والی رقم کے ذریعے منافع حاصل کرنا اور اس بھاری رقم کو اپنے پاس رکھنا بڑا جرم ہے اور جائیداد کے معاملے میں اس کا ثبوت ملتا ہے۔ سلیم مانڈوی والا نے مذکورہ لین دین میں اپنے بھائی کی کمپنی مانڈوی والا بلڈرز اینڈڈویلپرز اور اس کے بینک اکاو نٹ کو استعمال کیا ہے تاکہ اس لین دین کو کاروباری لین دین کے طور پر چھپایا جاسکے۔ وہ مذکورہ سودے کے بینیفشری ہیں کیوں کہ انہوں نیوسول ہونے والی رقم کو اپنے ذاتی فوائد کے لئے استعمال کیا ہے۔ ابتدائی طور پر اس نے اوورسیز کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی بلاک 7اور 8 میں اپنے ملازم عبدالقادر شیوانی کے نام پر پلاٹ نمبر30/55اے خریدا اور ٹرسٹ دعوت حدادیہ کراچی کے ساتھ اپنا ذاتی قرض بھی نمٹا لیا۔ تفصیلات درج ذیل ہیں۔ جرائم کے عمل سے سلیم مانڈوی والا کا کل حصہ اس طرح ہے۔ مانڈوی والا بلڈرز اینڈ ڈویلپرز کے اکائونٹ میں جعلی کھاتوں کے اوپن چیکوں کے ذریعے براہ راست 29.6ملین روپے جمع کروائے گئے۔ پلاٹ بیچنے والے احسن کو سلیم مانڈوی والا کے اپنے دستخطوں سے 20ملین روپے کا پے آرڈر جاری کیا گیا۔ احسن کو جعلی اکاؤنٹ کے ذریعے اوورسیز کوآپریٹو ہاو سنگ سوسائٹی کراچی کے بلاک نمبر 7اور8میں لیز والے پلاٹ نمبر30/55 کی خریداری کے لئے 30ملین روپے کی براہ راست ادائیگی کی گئی۔ دعوت ہدایت کراچی کو آخری قسط4.6 ملین روپے کی ادائیگی کی گئی۔ تاہم جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے ساتھ ساتھ نیب کے ذریعہ توجہ اور انکشاف کے بعد، اعجاز ہارون نے اپنے ٹیکس گوشواروں میں ترمیم کرکے حقائق کو بدلنے کی کوشش کی جس کے تحت سلیم مانڈوی والا کو بھجوا ئی گئی مبینہ رقم کو قرض کا رنگ دیا گیا۔ اس طرح کا انکشاف ان کی کو چھپانے لئے سوچا جانے کے سلیم مانڈوی والا نے اپنے ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا ہے۔سلیم مانڈوی والا نے 6سے 8ماہ کی مدت کے بعد، وہ پراپرٹی فروخت کر دی جو قادر شیوانی کے نام پرجرم کے ذریعے حاصل کی گئی کی رقم کو استعمال کر کے خریدی گئی تھی۔ اس کی آمدنی کو پھر سے مانڈوی والا بلڈرز ایند ڈویلپرز کے کمپنی اکائونٹ میں منتقل کیا گیا جس کو سلیم مانڈوی والا نے 2013ء سے چلانے کا اختیار حاصل کیا تھا۔ جرم میں استعمال ہونے والے اسی اکائونٹ کو دوبارہ سلیم مانڈوی والا نے 31ملین روپے مالیت کے منگلا ویو ریسارٹ کے 30لاکھ حصص کی اپنے ملازم طارق محمود کے نام پر خریداری میں استعمال کیا تھا۔ وہی حصص 24 ستمبر2020 کو معزز احتساب عدالت اسلام آباد نے منجمد کر دیئے ہیں۔ تمام ادائیگیاں سلیم مانڈوی والا کے اپنے دستخطوں سے کی گئی تھیں۔ طارق محمود سلیم مانڈوی والا کا ملازم ہے جس کی کوئی مالی حیثیت نہیں ہے۔ بظاہر انہیں سلیم مانڈوی والا کے بے نامی دار کے طور پر سامنے لایا گیا ہے۔ سلیم مانڈوی والا کو کال اپ نوٹس جاری کیا گیا تھا تاکہ وہ 18 اکتوبر 2019ء کو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے روبرو پیش ہوں اور بھیجے گئے سوالات کے تناظر میں جرم کے ذریعے وصول ہونے والی رقم کے استعمال کا جواز پیش کریں۔ انہوں نے 5 ماہ کے وقفے کے بعد سوالنامہ کا جواب دیا جس میں کوئی وضاحت، جواز نہیں ہے۔ 25 جون کو ایک بار پھر کال اپ نوٹس جاری کیا گیا۔ تعاون کے بجائے ملزم سلیم مانڈوی والا نے بزنس کمیونٹی کے پیچھے خود کو چھپانے کا سہارا لیا۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ انہیں پارلیمنٹیرینز کا بہت احترام ہے اور قانون کے مطابق ان کی عزت نفس کو یقینی بنایا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے کیس کی جانچ پڑتال کی جائے گی اور قانون کے مطابق انصاف ہوگا۔