نواز شریف کی چوری 16ارب روپے ، براڈ شیٹ کو ادائیگی ماضی کے این آر او کی قیمت : شہزاد اکبر
اسلام آباد (نامہ نگار) وزیراعظم کے مشیر داخلہ و احتساب شہزاد اکبر نے براڈ شیٹ سے متعلق معاہدے کی دستاویزات پبلک کردیں اور کہا دستاویز پبلک کئے بغیر شفافیت نہیں آسکتی، براڈ شیٹ معاملے میں جو ادائیگی کی گئی وہ ماضی میں کی گئیں ڈیلز اور دیے گئے این آر اوز کی قیمت ہے۔ ماضی میں ہو نے والے این آر او اور تصیفے کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے کیوں کہ اس کی ادائیگی حکومت پاکستان کو عوام کے ہی ٹیکس کے پیسوں سے کرنی پڑی ہے۔ ایون فیلڈ کی مد میں براڈ شیٹ کو 1.5ملین ڈالر دیئے گئے، یہ ادائیگی ٹیکس دہندگان کی رقم سے ہوئی۔ پیر کو پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے شہزاد اکبر نے کہا کہ براڈشیٹ کے معاملے پر کچھ چیزیں بتانا چاہتا ہوں۔ وزیراعظم کی ہدایت پر اٹارنی جنرل آفس نے براڈ شیٹ سے متعلق اہم دستاویز پبلک کرنے کیلئے وکلا نے رابطہ کیا، براڈشیٹ کی جانب سے ای میل موصول ہوئی ہے۔ وزیراعظم کی ہدایت پر براڈشیٹ سے متعلق یہ دونوں فیصلے کے دستاویز پبلک کررہے ہیں۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ براڈ شیٹ کے معاملے میں کوانٹم اور ہائی کورٹ کے احکامات تھے، عدالت کا فیصلہ اپیل پر ہونے کی وجہ سے عوام کے لیے قابل رسائی تھا البتہ واجب ادا کی رقم کے تعین کے حوالے سے کوانٹم کا حکم پرائیویٹ تھا۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے حکم پر ہم نے اپنے وکلا کے ذریعے براڈ شیٹ کے وکلا سے رابطہ کیا اور ان سے تحریری طور پر رضامندی حاصل کی گئی کہ حکومت پاکستان تمام فیصلوں کو منظر عام پر لانا چاہتی ہے جس پر ان کی جانب سے بتایا گیا کہ ان کے موکل کو یہ فیصلے منظر عام پر لانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔براڈ شیٹ کمپنی کے ساتھ معاملات کے آغاز سے تفصیلات بتاتے ہوئے شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ سال 2000میں جون کے مہینے میں قومی احتساب بیورواور براڈ شیٹ کے مابین اثاثہ برآمدگی کا پہلا معاہدہ ہوا، جس کے بعد جولائی 2000میں ایک اور ادارے انٹرنیشنل ایسٹ ریکوی کے ساتھ ایک اور معاہدہ ہوا۔انہوں نے بتایا کہ دسمبر 2000میں جب نواز شریف اس وقت کی حکومت سے ڈیل کر کے سعودی عرب چلے گئے تو ایک اور معاہدہ ہوا جو چلتا رہا اور اس میں اس کمپنی کو مختلف اہداف دیے گئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ 28اکتوبر 2003میں حکومت پاکستان یعنی نیب نے براڈ شیٹ کے ساتھ یہ معاہدہ منسوخ کردیا، جس کے بعد دونوں اداروں نے 2007میں حکومت پاکستان کو نوٹس دے دیا تھا کہ ہماری رقم واجب الادا ہے۔شہزاد اکبر نے بتایا کہ ان نوٹسز کے تناظر میں آئی اے آر کے ساتھ جنوری 2008میں تصفیہ کیا گیا اور انہیں 22لاکھ 50ہزار ڈالر ادا کیے جانے تھے جو اب بھی نافذ عمل ہے۔انہوں نے بتایا کہ 20مئی 2008کو براڈ شیٹ کے ساتھ بھی تصفیے کے معاہدے پردستخط ہوئے جس کے تحت انہیں 15لاکھ ڈالر کی ادائیگی کی جاتی ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ اکتوبر 2009کو براڈ شیٹ نے واجب الادا رقم کی ادائیگی کے لیے ایک مرتبہ پھر حکومت پاکستان کو نوٹس بھیجا، چنانچہ اس دور میں دوبارہ ثالثی کی کوششوں کا آغاز ہوا جبکہ پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ثالثی میں معاملہ چلتا رہا اور 2016میں اپنے اختتام پر پہنچا جس کے تحت اگست 2016میں پاکستان کے خلاف واجب الادا رقم کا دعوی منظور ہوگیا، جس کے بعد 2سال تک رقم کے تعین کا سلسلہ چلا اور اس کا فیصلہ جولائی 2018میں ہوا۔انہوں نے بتایا کہ اگست 2018میں ہماری حکومت آئی اور جولائی 2019میں اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ اپیل کی گئی جس کا فیصلہ ہمارے خلاف آیا، فیصلے میں 2007کے این آر او کے بارے میں بھی لکھا ہے، اس فیصلے کے مطابق ان کی چوری کا تخمینہ 16ارب روپے لگایا گیا ہے، نوازشریف تو 2000 تک ایون فیلڈ کو اپنی ملکیت مانتے ہی نہیں تھے، اس فیصلے میں 2007 کے این آر او کے بارے میں بھی لکھا ہے، 21.5ملین ڈالر میں سے 20ملین ڈالر کی ادائیگی نوازشریف کے دیگر اثاثوں پر ہوئی۔ جون 2020میں براڈ شیٹ نے ثالثی کا عبوری حکم حاصل کیا کہ پاکستان کو رقم کی ادائیگی کرنی ہے لہذا اس کے جہاں بھی اثاثے ہوں ان پر ایک ضمنی حکم جاری کیا جائے، یہ حکم ایون فیلڈ اپارٹمنٹس اور بینک اکائونٹس پر لیا گیا۔شہزاد اکبر نے کہاکہ 31دسمبر 2020کو براڈ شیٹ کو واجب الادا رقم کی ادائیگی کی گئی جس کے بعد اس نے عبوری حکم واپس لے لیا۔ شہزاد اکبر نے کہاکہ 48گھنٹوں میں وزیراعظم عمران خان نے سفارشات مانگی ہیں وہ بھی پبلک کی جائیں گی، براڈشیٹ کو ادائیگی ٹیکس دہندگان کی رقم سے ہوئی۔شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ احتساب کے لیے سب سے زیادہ ضروری شفافیت ہے، ہمیں اپنے اداروں پر بھی اعتماد کرنا چاہیے،برطانوی عدالت نے کہا کہ آپ براڈ شیٹ کو ادائیگی کریں، براڈ شیٹ کے معاہدے میں منصورالحق کا نام نہیں ہے،ہمارا موقف تھا کہ ریکوری نہیں ہوئیں۔۔انہوں نے کہا کہ براڈ شیٹ کا معاملہ سامنے رکھنے سے ایک چیز واضح ہوتی ہے کہ یہ معاملہ ماضی کی ڈیلز اور این آر اوز کی قیمت ہے۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں جو این آر او اور تصیفے ہوئے اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے کیوں کہ اس کی ادائیگی حکومت پاکستان کو آپ کے ہی ٹیکس کے پیسوں سے کرنی پڑی ہے،ان کا کہنا تھا کہ ہم سب کادل دکھتاہے کہ احتساب ہوتانظرنہیں آرہا، احتساب ہوتانظرنہ آنے اصل وجہ ماضی کے این آراوہیں۔ ایک شخص ڈس کوالیفائی ہوگیا مگرپارٹی آج بھی لیڈر مانتی ہے، ان کی چوری کا اندازہ16ارب روپے لگایا گیا یہ وہ این آراوکی قیمت ہے۔ ان کی پریس کانفرنس کے دوران صحافیو ں نے نجی ٹی کے کیمرہ مین پر جوڈیشل کمپلیکس میں تشدد کے معاملے پر احتجاج کیا اور انہوں نے واقعے میں ملوث افراد کیخلاف سخت کارروائی کی یقین دہانی کروائی۔ شہزاد اکبر کا اس موقع پر کہنا تھا کہ، مجھے اس کیمرہ مین پر تشدد کی ویڈیو بھیجی گئی جو میں نے آئی جی اسلام آباد کو بھیج دی ہے۔