غیر ملکی امداد اور اندرونی فساد، شیخ رشید کی غیر ضروری بیان بازی اور کمزور سیاسی نظام!!!!
الیکشن کمیشن میں پاکستان تحریکِ انصاف کی فارن فنڈنگ پر کیس چل رہا ہے اور اپوزیشن کا مطالبہ تو یہی ہے کہ اس کیس میں پی ٹی آئی کے خلاف فیصلہ دے کر اس کا راستہ صاف کیا جائے۔ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ اس حوالے سے احتجاج بھی کر رہی ہے الیکشن کمشن کے باہر بھی تماشا لگایا گیا یعنی غیر ملکی امداد نے اندرونی طور پر فساد پر برپا کر رکھا ہے۔ مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلز پارٹی اور مسترد شدہ مولانا فضل الرحمٰن یہ سب چاہتے ہیں رات کو سوئیں صبح اٹھیں تو حکومت بدلی ہو۔ حکومت بدل جائے بھلے کیسے بھی بدلے۔ ان تینوں جماعتوں کے سربراہان کی پہلی اور آخری خواہش یہی ہے کہ صبح جاگیں اور انہیں اسلام آباد کی ٹکٹیں مل چکی ہوں لیکن فوری طور پر ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ یہ احتجاجی مظاہرے تینوں سیاسی جماعتوں کی بیچینی کو ظاہر کرتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نسبتاً کم بیچین ہے وہ صرف آئندہ عام انتخابات اور فیصلہ سازوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے پلیٹ فارم پر بھی پیپلز پارٹی درمیانی راستہ ہی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وہ اندرونی فساد کا حصہ تو ہے لیکن اس فساد میں اس کا کردار ہومیو پیتھک جیسا نظر آتا ہے۔ غیر ملکی امداد کے شور میں مولانا اکیلے وزارتِ عظمی کا خواب بھی دیکھ رہے ہیں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مولانا کے قریبی لوگ انہیں مسٹر پرائم منسٹر ہی کہتے ہوں۔
اب اس غیر ملکی امداد میں ایک نیا موڑ آیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اوہن چیلنج کر دیا ہے وہ کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کو ملنے والی غیر ملکی امداد کی کارروائی براہ راست دکھائی چاروں سیاسی جماعتوں کے سربراہان بیٹھ کر کیس کا دفاع کریں۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ بیان خوش آئند ہے۔ درحقیقت تمام جماعتوں کو الیکشن کمشن سے اپنی درخواستیں واپس لینی چاہییں جب پارلیمانی نظام حکومت موجود ہے۔ پارلیمنٹ موجود ہے، قومی و صوبائی اسمبلیاں موجود ہے، سینیٹ موجود ہے پھر الیکشن کمشن کی ضرورت ہی کیوں ہے۔ پارلیمنٹ میں جائیں تمام ثبوت و شواہد وہاں لے کر بیٹھیں وہیں سے براہ راست کوریج جائے تمام جماعتیں اپنی اپنی غیر ملکی امداد کی تفصیلات عوام کے سامنے رکھیں، پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی قائم ہو ایک بااختیار کمیٹی جو ہر حال میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرے، کس کس کو کس کس نے مالی مدد فراہم کی ہے حقائق عوام تک آنے چاہییں اور یہ سارا کام الیکشن کمیشن کے بجائے پارلیمنٹ سے ہی ہونا چاہیے کیونکہ پارلیمنٹ سپریم ہے اور اس کی برتری ہر حال میں نظر آنی چاہیے۔ کیا پارلیمنٹ صرف اس لیے ہے کہ وہاں کبھی پاکستان پیپلز پارٹی کا سربراہ وزیر اعظم کے طور پر نظر آئے تو کبھی پاکستان پیپلز پارٹی کا نمائندہ وزارتِ عظمی کا حلف اٹھاتا نظر آئے، کیا پارلیمنٹ کی موجودگی صرف چند افراد کو وزیراعظم بنانے تک ہی محدود ہے۔ نظام میں شامل تمام سیاسی جماعتیں دل بڑا کریں اور الیکشن کمیشن میں دائر کیاز واپس لے کر پارلیمنٹ آئیں، پارلیمنٹ میں بیٹھ کر اس مسئلے کا حل نکالیں۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں کوئی مسئلہ حل کرنے کے لیے اتفاق کریں اور مسئلہ حل نہ ہو یہ مسئلہ تو ویسے پارلیمانی نظام کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے پھر الیکشن کمشن یا کسی اور کمشن جانے کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی ہے۔ پارلیمنٹ سے پورے ملک کے مسائل حل کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، پارلیمنٹ کو ملکی ترقی سے جوڑا جاتا، پارلیمانی نظام کی تعریف میں زمین و آسمان ایک کیے جاتے ہیں۔ اگر پارلیمنٹ میں یہ سب کچھ ہو سکتا ہے تو ہھر غیر ملکی امداد کا پتہ لگانا کیسے مشکل ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کارروائی برقہ راست نشر کرنے کی تجویز پیش کر کے سب کے لیے آسانی پیدا کی ہے انہیں اس سے بھی ایک قدم آگے جاتے ہوئے غیر ملکی امداد کے بارے مسئلہ پارلیمنٹ میں ہی حل ہونا چاہیے۔ اس سے پارلیمنٹ کی عزت و توقیر میں اضافہ ہو گا، نظام مضبوط ہو گا، عوام کا پارلیمنٹ پر اعتماد بڑھے گا۔
مسلم لیگ نون پی ٹی آئی کی غیر ملکی امداد کے پیچھے ایسے پڑی ہے جیسے اس کے اپنے ہاتھ صاف ہیں انہوں نے تو دل کھول امداد لی ہے اور اپنے چاہنے والوں کو دل کھول کر امداد دی بھی ہے بلکہ انہوں نے تو قومی خزانے کو بھی غیر ملکی امداد ہی سمجھا ہے جب چاہا جیسے چاہا استعمال کیا، جب چاہا جتنا چاہا لوٹ لیا، بیرون ملک بھجوا دیا۔ انہوں نے تو ملک و قوم کو قرضوں کے جال میں پھنسایا ہے۔ قومی خزانے کا بیڑہ غرق کیا ہے۔ ملک و قوم کا بال بال مقروض کرنے کے بعد انہیں غیر ملکی امداد پر اعتراض ہو رہا ہے چلیں پی ٹی آئی کو غیر ملکی امداد ملی ہے اس جماعت کے بڑوں نے تو ملکی خزانہ ہی بیرون ملک پہنچا دیا ہے۔ جب ان سے یہ سوال ہوتا ہے تو کوئی جواب نہیں دے پاتے۔ میاں نواز شریف کو عمران خان کی پیشکش پر خوش آمدید کہتے ہوئے پارلیمنٹ میں یہ مسئلہ حل کرنا چاہیے۔ جمہوریت کی نام نہاد علمبردار پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی کھل کر میدان میں آنا چاہیے جمہوریت کی جدوجہد کا نام لینے والوں کو حقیقی جمہوری رویوں کا عملی مظاہرہ بھی کرنا چاہیے۔ یہ تمام سیاسی جماعتیں اگر نظام کا حصہ ہونے کے باوجود اپنے مسائل دیگر اداروں کے سامنے لے کر جاتی ہیں تو یہ نظام کی کمزوری کا اظہار ہے۔ ویسے تو جو طرز حکومت انہوں نے اختیار کیا ہے اس وجہ سے پاکستان کے جرمانے ہی نہیں ختم ہو رہے اتنے پیسے تو ہم نے کمائے نہیں ہیں جتنے جرمانے ادا کرنا پڑ رہے ہیں وہ بھکے ملائشیا میں پکڑا جانے والا جہاز ہو یا براڈ شیٹ ہو یا دیگر معاہدوں کی خلاف ورزی کی صورت میں ادا کیا جانے والا جرمانہ ہو ہر جگہ یہی نظر آتا ہے کہ سیاسی جماعتوں ملکی خزانے کو بھی غیر ملکی فنڈنگ کی طرح بیرحمی سے استعمال کیا ہے۔ یہ سلسلہ انیس سو پچاسی سے آج تک جاری ہے۔ جو معاہدے پرویز مشرف نے کیے تھے ان پر پاکستان پیپلز پارٹی نے عمل نہیں کیا اور جو معاہدے پیپلز پارٹی نے کیے تھے ان پر میاں نواز شریف کی مسلم لیگ نے عمل نہیں سب ایک دوسرے ہی مخالفت کرتے رہے اور جگہ جگہ پاکستان کو نقصان ہوتا رہا۔ کراچی میں شہری انتظامیہ کو بھی معاہدے کی پاسداری نہ کرنے کی وجہ سے چھ ارب سے زائد ادا کرنا پڑیں گے۔ 2006 میں ملائیشین کمپنی کے ساتھ ایلی ویٹڈ ایکسپریس وے بنانے کا معاہدہ کیا گیا تھا لیکن مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے پینتیس کروڑ ڈالر کا معاہدہ درمیان میں ہی توڑنا پڑا یوں کبھی شروع ہی نہ ہونے والے منصوبے کا جرمانہ بھی اربوں میں ادا کرنا پڑے گا۔ یہ سارے پیسے قومی خزانے سے ہی ادا ہوں گے اسی طرح جو بھاری قرض ان سیاسی جماعتوں نے لیے ہیں اس کا سود بھی قومی خزانے سے ادا ہوتا ہے پھر یہ بڑھ بڑھ کر جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں۔
وفاقی وزیر شفقت محمود کہتے ہیں کہ جس سرکاری افسر کے خلاف نیب یا ایف آئی اے کا کیس ہو گا اسے ترقی نہیں ملے گی۔ بہت اچھی بات ہے جس افسر کے خلاف بھی بدعنوانی کا کیس ہو اسے ہرگز ہرگز ترقی نہیں ملنی چاہیے لیکن یہ بھی یقینی بنانا چاہیے کہ کیس میرٹ پر ہو اور اسکی تفتیش جلد مکمل ہو برسوں کیس ہی نہ چلتا رہے اور بندہ پیشیوں میں ہی بھگت جائے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ سرکاری افسران کی ترقی تو حکومت روک دے گی لیکن جن وزراء یا سیاست دانوں پر اسی نوعیت کے کیسز چل رہے ہوں گے ان کے بارے پی ٹی آئی کیا راستہ اختیار کرے گی۔
میاں نواز شریف نے کیا کرنا ہے، کہاں رہنا ہے کیسے رہنا ہے اس حوالے سے بحث ہر وقت جاری رہتی ہے اور شیخ رشید کی لچھے دار تقریریں اس بحث کو زندہ رکھتیں ہیں۔ شیخ رشید نے میاں نواز شریف کے پاسپورٹ پر خاصے جارحانہ بیانات جاری کیے ہیں لگتا ہے انہیں یوٹرن لینا پڑے گا کیونکہ وہ کسی صورت ان کا پاسپورٹ منسوخ نہیں کر سکتے انہیں پاسپورٹ جاری کرنا ہی پڑے گا اس لیے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے بات چیت ہی سنجیدہ رویے کا اظہار ہے لیکن بدقسمتی ہے کہ سنجیدگی اور شیخ رشید دو متضاد چیزیں ہیں ان سے کبھی کسی بھی معاملے میں سنجیدہ گفتگو کی توقع نہیں کی جا سکتی وہ تو اچھی بھلی سنجیدہ محفل میں غیر سنجیدہ گفتگو سے محفل کا بیڑہ غرق کرنے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔