اسمگل شدہ ایرانی پیٹرولیم پر کریک ڈاؤن
ایف بی آر نے ایرانی پیٹرولیم مصنوعات کیخلاف کریک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے جو خوش آئند ہے اور جب تک اسمگلنگ کا خاتمہ نہیں ہوجاتا اس وقت تک پاکستانی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہوسکتی اور ہم ہمیشہ عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے کشکول پھیلانے پر مجبور رہیں گے۔ ایف بی آر نے اپنے اشتہار میں سالانہ اربوں روپے ٹیکس چوری بچانے کیلئے کریک ڈاؤن کے آغاز کا اعلان کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے آنے سے پہلے تک ایرانی پیٹرولیم مصنوعات بلوچستان کی حدود تک فروخت ہوتی تھیں لیکن اب ملک بھر میں ایرانی پیٹرولیم مصنوعات فروخت ہورہی ہیں اور موجودہ حکومت کے ڈھائی سال میں تقریباً 900 ارب تک ٹیکس چوری کا نقصان ہوچکا ہے جس کی وجہ سے ہماری معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے اور اب بھی اگر اسمگلنگ کی روک تھام نہ ہوئی تو یہ سلسلہ بڑھتا چلا جائیگا اور اب بھی یہ صورتحال ہے کہ ملک بھر کے منظور شدہ تقریباً 90%پیٹرول پمپوں پر بھی ایرانی پیٹرولیم مصنوعات مکس کرکے فروخت کی جارہی ہیں اور وائٹ اسپرٹ‘ کیروسین و لائٹ ڈیزل اسی لئے عام آدمی کیلئے ناپید ہیں کہ یہ ڈیزل و پیٹرول میں مکس کئے جارہے ہیں۔
حکومت کا ایرانی پیٹرولیم مصنوعات کیخلاف کریک ڈاؤن خوش آئند اور ملکی معیشت کی مضبوطی کیلئے ضروری ہے۔ اس کا طریقہ کار تو یہی بنتا ہے کہ حکومتی ٹیم ہر پیٹرول پمپ پر جائے چاہے وہ منظور شدہ ہے یا نہیں اور وہاں پر جاکر پیٹرول پمپ کے عملے کے سامنے پیٹرولیم مصنوعات کا سیمپل 2بوتلوں میں لے اور دونوں بوتلوں کو Sealکیا جائے جس میں سے ایک سیمپل چیکنگ کیلئے لیبارٹری بھیجا جائے اور دوسرا پیٹرول پمپ کے عملے کے پاس ہو۔ لیبارٹری رپورٹ میں اگر ایرانی پیٹرولیم مصنوعات ثابت ہوجاتی ہیں تو چاہے منظور شدہ پیٹرول پمپ ہے یا نہیں‘ اسے ہمیشہ کیلئے بند کردینا چاہئے کیونکہ اس عمل سے ایک طرف تو ملکی معیشت کو سالانہ اربوں روپے کے ٹیکس کا نقصان ہورہا ہے تو دوسری طرف عام آدمی کو معیاری پیٹرولیم مصنوعات میسر نہیں جس کی وجہ سے انکی لاکھوں روپے کی گاڑیاں آئے روز خراب ہوجاتی ہیں۔ ایرانی پیٹرولیم مصنوعات کیخلاف کریک ڈاؤن تو اسی طرح ہوسکتا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کے غیر معیاری ہونے کو ثابت کرلیا جائے اور پھر اسکے بعد کسی قسم کی رعایت نہیں ہونی چاہئے۔
لیکن عملی طور پر حکومتی ٹیمیں ایرانی پیٹرولیم مصنوعات کیخلاف کریک ڈاؤن کے نام پر حکومت کو بدنام کر رہی ہیں اور کہیں بھی پیٹرولیم مصنوعات کا سیمپل لیکر لیبارٹری ٹیسٹ نہیں لیا جارہا بلکہ حکومتی کریک ڈاؤن کی آڑ میں حکومتی ٹیمیں خصوصاً پنجاب کے کچھ علاقوں میں پیٹرول پمپوں پر جاکر Explosive Dept.کے جاری کردہ Kفارم کی عدم دستیابی یا Expiryکی صورت میں پیٹرول پمپ کو Sealکیا جارہا ہے جس سے حکومت کی بدنامی ہورہی ہے ۔ Kفارم متعلقہ پیٹرولیم کمپنی کو Explosive Dept.جاری کرتا ہے اور اسکی مدت کی توسیع کیلئے بھی متعلقہ آئل مارکیٹنگ کمپنی ہی حکومت کو لیٹر لکھ کر توسیع لیتی ہے اور اگر Kفارم کی مدت ختم ہوچکی ہو تو حکومتی ٹیم اس پیٹرول پمپ کو معمولی جرمانہ کرکے Kفارم کی مدت میں توسیع کیلئے وقت دے سکتی ہے تاکہ وہ اپنی متعلقہ آئل مارکیٹنگ کمپنی کو کہہ کر Kفارم میں توسیع کرالے لیکن اس معاملے پر پمپ کو Sealکیا جانا قطعی درست نہیں اور یہ سراسر حکومت کے اعلان کردہ ایرانی پیٹرولیم مصنوعات کیخلاف کریک ڈاؤن کو تماشہ بنانے کی کوشش ہے۔
پیٹرول پمپ کی منظوری کا سب سے اہم اور آخری لیٹر متعلقہ ڈپٹی کمشنر کی جانب سے منظوری کا لیٹر ہوتا ہے جو اس وقت تک جاری ہی نہیں کیا جاتا جب تک کہ پیٹرول پمپ کی منظوری کیلئے تمام سرکاری اداروں کی جانب سے منطوری کے لیٹرز فائل میں نہ لگے ہوں ۔ جب تمام سرکاری اداروں کی جانب سے منظوری کے لیٹرز فائل میں مکمل ہوجاتے ہیں جو متعلقہ ڈپٹی کمشنر N.O.Cجاری کرتا ہے جس کے بعد پیٹرول پمپ قانونی اور منظور شدہ قرار پاتا ہے۔ ہر قانونی اور منظور شدہ پیٹرول پمپ کی تمام سرکاری اداروں سے منظوری کی پوری فائل متعلقہ ضلعی انتظامیہ کے دفتر میں موجود ہوتی ہے۔ اگر حکومتی چھاپہ مار ٹیمیں یہ دیکھنا چاہتی ہیں کہ یہ پیٹرول پمپ منظور شدہ ہے یا نہیں تو پیٹرول پمپ کے عملے سے سب سے اہم متعلقہ ڈپٹی کمشنر کی N.O.C طلب کریں اور اس منظوری کے کاغذ کی موجودگی کے بعد کسی بھی اور کاغذ کا طلب کیا جانا کوئی معنی نہیں رکھتا اور اگر حکومتی ٹیم دیگر کاغذات کا مطالبہ کررہی ہے اور دیگر کاغذات کی عدم دستیابی یا مدت کے خاتمے کو جواز بناکر پیٹرول پمپ Sealکیا جانا حکومتی کریک ڈاؤن کے نام پر مذاق کے مترادف ہے۔
وزیراعظم عمران خان اور چیئرمین ایف بی آر کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہئے اور حکومت و اداروں کی بدنامی کا باعث بننے والے افراد کیخلاف قرار واقعی کارروائی ہونی چاہئے اور حکومتی ہدف کو پورا کرنے کیلئے کریک ڈاؤن کو درست سمت میں انجام دینا بہت ضروری ہے تاکہ ایرانی پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت ناممکن ہوجائے لیکن یہاں معاملہ ہی کچھ اور ہے۔ ایرانی پیٹرولیم مصنوعات کو بارڈر سے ہی نہیں روکا جارہا اور پھر ملک بھر کے پیٹرول پمپوں تک آسان رسائی کے بعد کریک ڈاؤن کے نام پر مذاق بنادیا گیا ہے۔ ہر پیٹرول پمپ پر پیٹرولیم مصنوعات کا سیمپل لیکر ایرانی پیٹرولیم مصنوعات فروخت کرنے والے تمام پیٹرول پمپوں کو ہمیشہ کے لئے بند کیا جانا چاہئے۔
ماضی میں وزیراعظم عمران خان نے جب بھی کسی چیز کی مہنگائی یا کسی اور معاملے کا نوٹس لیا ہے تو اس معاملے میں مزید اضافہ ہی ہوا ہے جس کی وجہ نچلی سطح پر ان چیزوں کی روک تھام کرنے والے افراد کے غلط رویئے اور طرز عمل ہیں جیسا کہ اب ایرانی پیٹرولیم مصنوعا ت کیخلاف کریک ڈاؤن کے معاملے پر کیا جارہا ہے بالکل اسی طرح مصنوعی مہنگائی‘ ذخیرہ اندوزی‘ ملاوٹ سمیت آٹا‘ چینی بحران کے معاملے میں بھی نچلی سطح پر حکومتی اعلان کے برعکس اقدامات کی وجہ سے عوام کو ریلیف ملنے کی بجائے حالات بد سے بدتر ہوگئے۔ خدارا!وزیراعظم عمران خان اور چیئرمین ایف بی آر اس معاملے میں سخت نوٹس لیکر کریک ڈاؤن کو درست سمت میں انجام دیئے جانے کو یقینی بنائیں۔