۔۔۔ اور اب گوسوامی لیکس
انوائے نائیک انٹرئیر ڈیزائننگ کے فن کو اس قدر بام عروج پر لے گیا کہ اس کا بزنس لاکھوں سے بڑھ کر کروڑوں میں چلا گیا۔ بڑے کاروبار میں آمدنی کروڑوں کی ہوتی ہے۔دوسری طرف خسارہ کروڑوں میں بڑھتا اور اُدھار بھی کروڑوںچڑھتا ہے۔ انوائے نائیک کواُدھاریوں نے ڈبودیا۔ تقاضوں کے باوجود اس کو ادائیگیاں نہ کی گئیں تو اس نے ماں سمیت خودکشی کر لی۔ اس موقع پر اس نے ایک تحریر چھوڑی جس میں اس نے تین لوگوں سے سات لاکھ ڈالر کی ادائیگی نہ ہونے کو خودکشی کی وجہ بتایا۔ اسے فیروز شیخ نے 4 کروڑ ، ارنب گوسوامی نے 85 لاکھ اور نتیش شاردہ نے 55 لاکھ ادا کرنا تھے۔ 4 نومبر2020ء کو ممبئی پولیس نے تینوں کو گرفتار کر لیا۔ ان گرفتاریوں پر بھارتی میڈیا میں ہلچل مچ گئی۔ اس کی وجہ ارنب گوسوامی کا گرفتار ہونا تھا۔ یہ بھارتی میڈیا کا سب سے بڑا منہ پھٹ اینکر ہے۔ مودی سرکارکا مائوتھ پیس پابھونپو ہے۔ ہمارے ہاں عرف عام میں ایسے شخص کو’’ بھونکا‘‘ کہتے ہیں۔
گوسوامی پاکستان کا مودی کی طرح دشمن اور مودی سے اس کی بڑی دوستی ہے۔مودی سرکار کی حمایت میں زمیں آسمان کے قلابے ملا دیتا جبکہ مودی کے مخالفین پر پاکستان کی طرح برستا ہے۔ اسکی گرفتاری نائیک کی بیٹی کی درخواست پر ہوئی۔ مودی سرکار کے ناک کے بال کو دو سال قبل کے کیس میں گرفتار کرنا کچھ لوگوں کیلئے حیران کن تھا۔ اس معاملے میں ’’مودیان‘‘ سٹپٹا اور تلملا کر رہ گئے۔ مہاراشٹر جس کا دارالحکومت ممبئی ہے۔ وہاں بی جے پی کی مخالفت کانگریس اور شیوسینا کی حکومت ہے۔ اس نے مرکزی بی جے پی کی حکومت اور طاقتور اینکر کو بے بس کر دیا۔مہاراشٹر کے وزیر داخلہ انیل دیش مکھ نے یہ چمتکار کر دکھایا۔ ہائیکورٹ سے ضمانت نہ ہونے دی تاہم سپریم کورٹ کے جسٹس چندر چوڑ نے ارنب گوسوامی کی ضمانت لے لی۔ چند ماہ قبل اپریل میں بھی چندر چوڑ نے گوسوامی کی حفاظتی ضمانت منظور کی تھی۔ اب جب ضمانت ہوئی تواس دوران گوسوامی دس دن زیر حراست رہ چکا تھا ۔ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ اور دیگر وزرا اس گرفتاری پر بپھرے ہوئے تھے۔انکی طرف سے سخت بیانات آئے۔اسے صحافت پر حملہ قرار دیا گیا۔
ارنب گوسوامی مودی کا مہرہ ہے۔ وزیر اعظم ہائوس اور کئی وزارتوں سے اسکے ساتھ سٹیٹ سیکرٹس شیئر ہوتے حتیٰ کہ اسے مستقبل کی پلاننگ اور سازشوں سے بھی آگاہ کردیا جاتا تھا۔ اس کا بھانڈا بھی عجب طرح سے پھوٹا ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ارنب گوسوامی ری پبلک ٹی وی چینل کا ایڈیٹر انچیف اور مالک ہے۔ انوائے نائیک سے اسی سٹوڈیو کی آراستگی ڈیزائننگ کرائی گئی تھی۔ ری پبلک چینل کی ریٹنگ بڑھانے کیلئے اس نے براڈکاسٹ آڈیئنس ریسرچ کونسل (بارک) بی اے آر سی کے چیف پارتھو داس گپتا سے دوستی کی۔ بھارت میں اس ادارے نے 44 ہزار میٹر لگوا رکھے ہیں۔ ری پبلک کے علاوہ بھی کئی ٹی وی چینل جعل سازی سے ریٹنگ زیادہ کراتے تھے۔ جن گھروں میں میٹر لگے ہوتے انکی لسٹ رشوت دینے والوں کو فراہم کر دی جاتی۔ یہ ان کو اپنا چینل آن رکھنے کے پانچ سو سے چھ سو روپے ادا کرتے تھے۔ جن چینل کے یوٹیوب پر ویوز اور واچ آورزیادہ ہی نہیں بہت زیادہ آرہے ہوتے انکی طرف سے شکایتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو گپتا اور دیگر افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ اتفاق سے یہ گرفتاری اور تحقیقات بھی ممبئی پولیس نے کی۔گپتا کے موبائل نے نئی گیم کو جنم دیا۔ اسکے وٹس ایپ سے تین ہزار سے زائد پیجز دریافت ہوئے۔ان میں سے ایک ہزار گوسوامی سے متعلق تھے۔ارنب گوسوامی اور مسٹرپارتھو داس گپتا کے درمیان مستقل رابطہ رہا جبکہ بارک کے چیف آپریٹنگ آفیسر رومیلا رام گڑھیا اور ریپبلک ٹی وی کے سی ای او وکاس کنچندانی کے درمیان بھی اسکے متعلق بات چیت ہوتی رہی ۔گپتا اور گوسوامی کے مابین چیٹ میں وہ ساری کہانی ہے جس سے ثابت ہو گیا کہ ارنب گوسوامی کو بھارتی حکومت اور فوج کی کس کس منصوبہ بندی کا علم تھا۔
لیک ہونیوالے ڈیٹا کے مطابق 23 فروری 2019 کو ارنب گوسوامی نے گپتا کو بتایا ۔’’اب کچھ بہت بڑا ہونیوالا ہے۔‘‘گپتا نے پوچھا۔’’دائود ابراہیم کے بارے میں؟‘‘جواب میں اس نے بتایا۔’’نہیں پاکستان کے بارے میں۔‘‘گپتا خوشی سے کہتا ہے۔’’ بہت اچھا اب مودی الیکشن میں سویپ کرینگے۔کیا یہ سٹرائیک ہوگی؟‘‘ گوسوامی کا جواب ہے َ’’سٹرائیک سے کچھ بڑا جس سے لوگ خوش ہو جائینگے مجھے انہی الفاظ میں بتایا گیا ہے۔‘‘ یہ بالا کوٹ حملے سے تین روز قبل کی گفتگو ہے جبکہ چودہ جنوری کو پلوامہ حملے کے روز اسی چیٹ میں گوسوامی نے کہا تھا۔’’ یہ ایک بڑی فتح ہے ہمارا چینل وہاں سب سے آگے تھا۔‘‘ یہ چالیس بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کو فتح کہہ رہا ہے جس پر بھارتی اسکے خلاف آگ بگولہ ہیں۔گپتا کی اس سے کس قدر دوستی تھی اور اسکی حکومتی ایوانوں میں کیا اہمیت تھی اس کا اظہار گپتا کی طرف سے گوسوامی کو وزیراعظم کا ایڈوائزر بنوانے کی بات سے کیا جاسکتا ہے۔ ڈس انفورلیب کی نوعیت کچھ مختلف تھی مگر اسکی سنگینی کی شدت بھی کم نہ تھی۔ مگر ڈس انفور لیب اور گوسوامی لیک پر پاکستان کی حکومت کی طرف سے جو ردعمل آنا چاہئے وہ نہیں آیا۔ میڈیا میں بھی خاموشی رہی۔ حکومت نے رسمی ردعمل دیا۔ میڈیا میں اسے ایک عام خبر کی مانند چلا کر اپنی ذمہ داری ادا کر دی گئی۔ میڈیا کی پوری توجہ پی ڈی ایم کے جلسوں جلوسوں پر رہی۔ اپوزیشن اس معاملے سے سرے سے لاتعلق ہے۔ ڈس انفولیب اور گوسوامی لیکس پر پاکستانی میڈیا میں ایک کہرام برپا ہونا چاہئے تھا۔ اُدھر حکومت حرکت میں آتی پوری دنیا کو آگاہ کرنے کیلئے وفود بھیجے جاتے۔ پاکستانی سفیروں کو بلا کر بریفنگ دی جاتی۔ پاکستان میں موجود غیر ملکی سفیروں کو تفصیل کے ساتھ آگاہ کیا جاتا۔ حکومت کہہ سکتی ہے بہت کچھ کیا ہے۔ کہاں کیا ہے؟ میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے آ چکا ہوتا۔