یہی پالیسی برقرار رہی تو حکومت کیلئے پی ڈی ایم کی تحریک غیرمؤثر بنانا مشکل ہو جائیگا
پٹرولیم نرخوں کے بعد عوام پر حکومت نے بجلی بم بھی گرا دیا۔ نرخ بڑھنے کا (ن) لیگ پر الزام
وفاقی وزیر بجلی و پٹرولیم عمرایوب خان اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے بجلی تابش گوہر نے بجلی کے نرخوں میں ایک روپیہ پچانوے پیسے فی یونٹ اضافے کی ’’نوید‘‘ سناتے ہوئے کہا ہے کہ توانائی کے مسائل ہماری حکومت کو ورثے میں ملے ہیں‘ گردشی قرضہ (ن) لیگ حکومت کی کارستانی ہے۔ گزشتہ روز وفاقی وزیر اسدعمر کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سابق حکومت ہمارے لئے توانائی کے شعبہ میں بارودی سرنگیں چھوڑ گئی ہے۔ موجودہ حکومت نے مشکل حالات کے باوجود بجلی کے شعبہ میں 473‘ ارب روپے کی سبسڈی دی ہے۔ انکے بقول (ن) لیگ کی حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ جان بوجھ کر لٹکائے رکھا۔ اب ایک روپے 95 پیسے فی یونٹ بجلی کے نرخوں میں مجبوراً اضافہ کیا جارہا ہے۔ اگر ہم (ن) لیگ کے فیصلوں کو سامنے رکھ کر اضافہ کا فیصلہ کرتے تو یہ آٹھ سے 9 روپے فی یونٹ ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ آئی پی پیز کے ساتھ نئے معاہدوں سے توانائی کے شعبہ پر مالی بوجھ کم ہو جائیگا۔ آئی پی پیز کو 450‘ ارب روپے کے بقایاجات کی ادائیگی رواں سال کردی جائیگی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت کے فیصلوں سے آئندہ برسوں میں بجلی کی قیمت ایک سے دو روپے فی یونٹ کمی آئیگی۔
بے شک سابق حکمرانوں کی غلط اقتصادی‘ مالیاتی اور توانائی سے متعلق پالیسیوں سے بھی ملک مہنگائی کے طوفانوں کی زد میں آیا ہے اور پی ٹی آئی حکومت کو اب سابقہ حکمرانوں کی بے ضابطگیوں کا بھی حساب چکانا پڑ رہا ہے تاہم پی ٹی آئی کے اقتدار کا آدھے سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد اب عوام ہر خرابی کا ملبہ سابقہ حکمرانوں پر ڈالنے کی پالیسی سے مطمئن نہیں ہو سکتے جبکہ پی ٹی آئی کے اقتدار کے موجودہ اڑھائی سال کے عرصے کے دوران عوام کو تسلسل کے ساتھ بجلی‘ گیس‘ تیل‘ ادویات اور روزمرہ استعمال کی اشیاء کے نرخوں میں اضافے کے جھٹکے ہی لگتے رہے ہیں۔ عوام نے تو سابقہ حکمرانوں کے مسلط کردہ اپنے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل سے خلاصی اور اپنے اچھے مستقبل کیلئے عمران خان اور انکی پارٹی پاکستان تحریک انصاف سے توقعات وابستہ کی تھیں اور 2018ء کے انتخابات میں وفاقی اور صوبائی حکمرانی کا مینڈیٹ دیکر انہیں اقتدار کے ایوانوں میں پہنچایا تھا تاہم پی ٹی آئی کے دور میں عوام کے گھمبیر مسائل کم ہونے کے بجائے جس تیزی کے ساتھ بڑھے ہیں اور پی ٹی آئی کے اقتدار کے باقیماندہ عرصے میں عوام کو کسی قسم کا ریلیف ملنے کی کوئی امید بھی نظر نہیں آرہی‘ اسکے پیش نظر تو عوام راندۂ درگاہ ہو کر عملاً زندہ درگور ہو جائینگے۔
حکومتی اکابرین تو پٹرولیم مصنوعات‘ بجلی‘ گیس اور ادویات کے نرخوں میں آئے روز ہونیوالے اضافے کا ملبہ سابقہ حکمرانوں پر ڈال کر حکومتی گورننس کے معاملہ میں اپنے تئیں مطمئن ہو جاتے ہیں مگر مہنگائی کے سونامیوں نے عوام کی تو عملاً مت مار دی ہے جنہیں اپنے اچھے مستقبل کے حوالے سے بھی کچھ سجھائی نہیں دے رہا تو اس صورتحال میں اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی شکل میں سرگرم عمل حکومتی مخالفین کو عوام کا اضطراب حکومت مخالف تحریک کو مہمیز لگانے کیلئے استعمال کرنے کا ہی نادر موقع ملے گا۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ کچھ عرصہ قبل آئی پی پیز کے ساتھ قرضے ری شیڈول کرکے اور گردشی قرضوں سے خلاصی پانے کا دعویٰ کرکے وفاقی وزراء اسدعمر اور عمرایوب نے ہی نہیں‘ خود وزیراعظم عمران خان نے عوام کو نوید سنائی تھی کہ اب ان پر پڑنے والا بجلی کے اضافی نرخوں کا بوجھ کم ہو جائیگا اور ہم بتدریج عوام کو سستی بجلی فراہم کرنے کے قابل ہو گئے ہیں مگر یہ سارے دعوے نقش برآب ثابت ہوئے اور کم و بیش ہر ماہ فیول چارجز کے نام پر عوام پر بجلی کے بم گرائے جانے لگے۔ صرف اس پر ہی اکتفاء نہیں کیا گیا بلکہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں بھی ہر پندھرواڑے ردوبدل کی پالیسی اختیار کرلی گئی جس کے تحت نرخوں میں چند پیسوں کی کمی تو صرف ایک بار ہوئی جبکہ نرخوں میں ہر پندرہ روز بعد اضافہ اب معمول بن چکا ہے۔ ابھی اس سال کے آغاز ہی میں عوام کو پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اڑھائی سے ساڑھے تین روپے لٹر اضافے کا تحفہ دیا گیا اور اسکے پندرہ روز بعد ایک ہی ماہ میں پھر پٹرولیم نرخوں میں دو سے تین روپے اضافہ کردیا گیا اور ساتھ ہی یہ کریڈٹ بھی لیا گیا کہ اوگرا نے تو پٹرولیم نرخوں میں دس سے بارہ روپے فی لٹر اضافہ کی سمری بھجوائی تھی مگر وزیراعظم نے عوام کی مشکلات کے پیش نظر وہ سمری مسترد کی اور معمولی نرخ بڑھانے کی منظوری دی۔ کیا ایسی پالیسیوں سے عوام کو مطمئن کیا جا سکتا ہے جبکہ عوام تو اب مرنے کیلئے زہر کھانے کے بھی قابل نہیں رہے۔ اب توانائی سے متعلق وفاقی وزراء نے بجلی کے نرخ دو روپے تک بڑھانے کا اعلان کرتے ہوئے یہ کہہ کر عوام کے جذبات کا مذاق بھی اڑایا ہے کہ اگر (ن) لیگ کی پالیسیوں کو مدنظر رکھا جاتا تو ہمیں بجلی کے نرخ آٹھ سے 9 روپے فی یونٹ بڑھانا پڑتے۔ اگر حکومتی اکابرین مہنگائی کے مارے عوام کے زخموں پر پھاہے نہیں رکھ سکتے تو کم از کم زخموں پر نمک پاشی تو نہ کریں۔ اس پر مستزاد یہ کہ گندم‘ چینی‘ آٹا‘ چاول اور پٹرول ذخیرہ کرکے مصنوعی مہنگائی پیدا کرنیوالے مافیاز حکومتی گورننس کے کنٹرول میں ہی نہیں آرہے۔ اور حد تو یہ ہے کہ یوٹیلٹی سٹورز بھی آئے روز اشیائے خوردنی کے نرخوں میں اضافہ کرکے عوام کو مہنگائی کے کوہِ گراں کے آگے دھکیل رہے ہیں۔ گزشتہ روز یوٹیلٹی سٹورز پر سرخ مرچ‘ اچار‘ ڈبہ پیک دودھ‘ صابن‘ شیمپو سمیت متعدد اشیاء کے نرخوں میں پانچ سے ساٹھ روپے تک اضافہ ہوا ہے اور ایم ڈی یوٹیلٹی سٹورز نے اس کا جواز یہ پیش کیا ہے کہ مختلف برانڈز کی طرف سے چیزیں مہنگی ہونے پر ہم نے بھی نرخوں میں اضافہ کیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے وزیراعظم عمران خان نے یوٹیلٹی سٹورز کو جو اربوں روپے ریلیف پیکیجز کی مد میں فراہم کئے جن کی بنیاد پر عوام کو مہنگائی میںریلیف کا مژدہ سنایا جاتا رہا ہے‘ ان خطیر رقوم کا کیا مصرف ہوا ہے۔ اگر عوام کو مہنگائی کی مار مارنے کی یہی پالیسی برقرار رکھی گئی تو حکومت کیلئے پی ڈی ایم کی تحریک غیرمؤثر بنانا مشکل ہی نہیں‘ ناممکن بھی ہو جائیگا۔ اس لئے عوام کے صبر کا مزید امتحان نہ لیا جائے اور انہیں مہنگائی اور بے روزگاری میں فوری ریلیف فراہم کرنے کی گنجائش نکالی جائے۔