ایثارووفاء
حضرت ابوعمر وجریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ ہم ایک مرتبہ شروع دن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے تھے کہ کچھ لوگ ننگے پائوں، ننگے جسم، وھاری دارچادر پہنے اورتلواریں لٹکائے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔یہ لوگ قبیلہ مضر سے تعلق رکھتے تھے۔ان کے اس فقروفاقہ اورخستہ حالی کو دیکھ کر آپ کا چہرہ متغیر ہوگیا۔ پریشانی میں آپ کبھی اندرتشریف لے جاتے اورکبھی باہر تشریف لے آتے ۔پھر آپ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کا حکم دیا۔نماز کے بعدآپ نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیا۔خطبے میں آپ نے سورۃ النساء کی ابتدائی آیت کریمہ اورسورۃ الحشر کی آیت پڑھ کر لوگوں کو اپنے مفلس اورحاجت مند بھائیوں کی مدد کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا:ہر آدمی چاہے اس کے پاس ایک ہی دینار ہو، ایک ہی درہم ہو، ایک ہی کپڑا ہو ، ایک ہی صاع گندم کا یا ایک صاع کھجور کا ہو، اس میں سے صدقہ کرے حتیٰ کہ اگر اسکے پاس ایک کھجور ہے توکھجورکے ٹکرے سے بھی اپنے بھائیوں کی مددکرے۔آپ کا فرمانا تھا کہ لوگ گھروں کو دوڑکھڑے ہوئے اور دھڑادھڑحسب توفیق چیزیں لانے لگے۔راوی بیان کرتے ہیں کہ تھوڑی دیر میںکپڑوں اورکھانے کے دوڈھیر لگ گئے۔ صحابہ کرام کے اس جذبہ ہمدردی اورمواخات کو دیکھ کر اوردوسرے فقراء کی ضرورت کو اس طرح پورا ہوتے دیکھ کر ’’میںنے دیکھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انورخوشی سے یوں کھل اٹھا کہ گویا وہ چمکتا ہوا سونے کا ٹکڑا ہے۔‘‘
ایک دوسری روایت میں یہ اضافہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس طرز عمل کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک جہاں خوشی سے کھل اٹھا، وہاں آپ نے تعلیم امت کے لیے یہ بھی ارشادفرمایا کہ :’’جو شخص اسلام میں کوئی اچھا طریقہ (نیک کام)شروع کرے، جس پر اس کے بعدبھی عمل کیاجاتا رہے، توایجاد کنندہ کے لیے بھی اتنا ہی اجر وثواب لکھاجائے گا،جتنا اسکے کرنے والوں کو ملے گا۔اوران(عمل کرنے والوں)کے ثواب میں کسی چیز کی کمی نہیں کی جائے گی اوراس کے برعکس جس آدمی نے اسلام میں کوئی غلط طریقہ (گناہ کا کام)ایجاد کیا جس پر اس کے بعد بھی عمل کیا گیا تو اس آدمی(ایجاد کنندہ )کے کھاتے میں اتناہی گناہ لکھاجائے گا جتنا کرنے والوں کو ملے گا اورگناہ کا ارتکاب کرنے والوں کے گناہوں میں بھی کسی چیز کی کمی نہیں کی جائے گی۔(صحیح مسلم،بحوالہ : حب رسول اورصحابہ کرام)