’’ڈاکٹر جمشید ترین اور میری دُعائیں ؟‘‘
معزز قارئین ! 18 جنوری 2021ء کو ’’ ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان ‘‘ لاہور میں چیئرمین جناب محمد رفیق تارڑ اورچیئرمین ’’ تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ‘‘ میاں محبوب احمد اور دوسرے اکابرین کے زیر اہتمام تحریک پاکستان کے نامور کارکن سابق چیئرمین تحریک پاکستان ورکر ٹرسٹ کرنل (ر ) ڈاکٹر جمشید احمد ترین (مرحوم) کی پانچویں برسی کی تقریب تھی لیکن مَیں معذرت خواہ ہوں کہ ’’ خرابی ٔ صحت کی بنا پر حاضر نہیں ہو سکا‘‘ ۔
18 جنوری 2016ء کو جب کرنل (ر) ڈاکٹر جمشید احمد ترین صاحب کا لاہور میں انتقال ہُوا تواُس وقت مَیں اسلام آباد میں تھا ۔ مجھے ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے سیکرٹری برادرِ عزیز سیّد شاہد رشید اور ’’ ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان ‘‘ کے ’’دو درویشوں ‘‘ سیف اللہ چودھری ، حافظ عثمان احمد نے ٹیلی فون پر خبر سنائی ۔مَیں پہلے ہی نقاہت اور سردی کی لپیٹ میں تھا ، مجھے مزید ’’کانبا ‘‘ چڑھ گیا ۔ میری آنکھوں کے سامنے جواں عزم 92 سالہ ڈاکٹر ترین کا چمکتا دمکتا چہرہ آگیا۔ محبت کرنے والوں کے لئے ہر چہرہ ’’ پری چہرہ ‘‘ ہوتا ہے ۔ جناب عبدالحمید عدم ؔ نے کہا تھا …؎
’’ ہائے یہ لوگ، پری چہرہ لوگ!
ہائے یہ لوگ بھی مر جائیں گے ؟‘‘
…O…
1991ء میں میری والدہ صاحبہ، 1999ء میں‘ والد صاحب 2000 ء میں‘ بڑی بیگم 2006ء میں‘ چھوٹا بھائی اور 2008ء میں چھوٹی بیگم،جولائی 2014ء میں ڈاکٹر مجید نظامی بھی خالق حقیقی سے جا ملے لیکن موت کو تو آنا ہی ہوتا ہے ۔ زیادہ تر ’’ جرم حق پرستی میں ‘‘۔ یُونان کے اہل اقتدار نے فلسفی سُقراط ؔ کو زہر کا پیالہ پی کر اپنی زندگی ختم کرنے کا حق دِیا تھا ۔
ایک رات قبل سقراط کے کئی شاگرد قید خانے میں آئے اور اپنے عظیم اُستاد سے کہا کہ ’’ہم نے جیل کے منتظمین سے بات کرلی ہے ، ہم آپ کو بھگا کر یونان کی حدود سے دُور لے جاتے ہیں ‘‘ ۔ اُستاد مسکرایا اور بولا ’’ اے میرے پیارے شاگردو! کیا دُنیا میں کوئی ایسی جگہ ہے کہ جہاں انسان مرتے نہ ہُوں؟‘‘ اگر میں بھاگ گیا تو میرے دشمن کہیں گے کہ ’’ سُقراط جھوٹا تھا‘‘۔پنجابی کے پہلے شاعر بابا فرید گنج ؒ نے کہا تھا کہ…؎
’’جتّ دہاڑے زَن وَری ، سا ہے لئے لکھائِ!
جِند ووہٹی، مَرن وَر، لے جا سی پرنائِ ! ‘‘
…O…
یعنی ’ ’ جِس دِن زندگی کی سگائی کا دِن مقرر ہُوا تھا ۔ اُس کی رُخصتی ( موت کا ) دِن بھی مقرر ہوگیا تھا ۔ زندگی، دلہن اور موت ، دُلہا اور دُلہا اپنی دلہن کو ضرور بیاہ کر لے جائے گا ‘‘ ۔ مَیں نے اپنے ہر مرنے والے پیارے کے روشن روشن چہرے دیکھے ہیں ، انسانیت اور پاکستان سے محبت کرنے والے ڈاکٹر کرنل ترین کے دونوں بیٹوں (سابق وفاقی وزیر خزانہ جناب شوکت ترین اور سلک بنک کے جناب عظمت ترین) مرحوم کی 6 بیٹیوں ، دوسرے رشتہ دارروں اورنظریاتی دوستوں / عقیدت مندوںنے بھی آخری بار جب اپنے بزرگ / دوست کا چہرہ دیکھا ہوگا تو کسی نے اُسے چاندکی طرح نرم روشنی بکھیرتا ہوا اور کسی نے سورج کی طرح تمتماتا ہوا محسوس کِیا ہوگا ؟ اُن سب ’’زائرین چہرۂ ڈاکٹر ترین ‘‘ کے لئے علاّمہ اقبالؒ بہت پہلے کہہ گئے تھے کہ …؎
’’ مرنے والے مرتے ہیں ، لیکن فنا ہوتے نہیں !
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جُدا ہوتے نہیں ! ‘‘
…O…
معزز قارئین ! مَیں نے ڈاکٹر جمشید ترین سے بہت کچھ سِیکھا۔ اُن کا مطالعہ اور مشاہدہ بہت وسیع تھا وہ میرے کالم کی تعریف بھی کرتے تھے اور کبھی کبھی میرے تاریخی حوالوں اور فارسی کے شعروں/ مِصرعوں کی درستی بھی کرتے تھے ۔ مَیں جب بھی برادر عزیز سیّد شاہد رشید سے ملاقات کے لئے ۔ ’’ ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان حاضری دیتا تو مختلف تقاریب میں میری شرکت کے بعد ڈاکٹر مجید نظامی ، کرنل (ر) ڈاکٹر جمشید احمد خان ترین ، محمد رفیق تارڑ ، پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد ( اب مرحوم) میاں فاروق الطاف اور میرے بزرگ ترین دوست ’’ تحریک پاکستان ‘‘ کے نامور کارکن چودھری ظفر اللہ خان سے میری قُربت بڑھتی گئی ۔ علاّمہ اقبالؒ کے روحانی مُرشد مولانا روم ؒ نے کہا تھا کہ …؎
’’ یک زمانے، صُحبتِ با اولیائ!
خوشتر از صد سالہ، طاعت بے ریا ! ‘‘
… O …
یعنی ’’ اولیائے کرامؒ کی صحبت میں ایک گھڑی گزارنا سو سال کی ریا عبادت سے بھی بڑھ کر ہے‘‘۔ان صحبتوں میں مجھے اُن سے فارسی ، اردو اور پنجابی کے ہزاروں شعر سُننے کا اتفاق ہُوا ۔ 20 جون 2015ء کو مَیں علاج کے لئے لندن کے ایک ہسپتال میں داخل تھا ۔ اِس دوران جناب رفیق تارڑ اور ڈاکٹر ، کرنل (ر)جمشید احمد خان ترین ، میاں فاروق الطاف اور شاہد رشید اور دوسرے دوستوں سے ہر روز گفتگو ہوتی تھی ۔ ڈاکٹر ترین لاہور کے ایک ہسپتال میں داخل ہوگئے تو انہوں نے مجھے کہا ۔ ’’ اثر چوہان جی ! مَیں تہاڈے لئی دُعاواں کر رہیاں واں ، تُسِیں وی میرے لئی دُعاواں کرو!‘‘
معزز قارئین ! مَیں 4 ستمبر2015ء کو پاکستان واپس آیا تو چل پھر نہیں سکتا تھا۔ٹیلی فون پر میرا ہر روز ڈاکٹر صاحب سے دُعائوں کا تبادلہ ہوتا تھا ۔ ڈاکٹر صاحب بہت نیک انسان تھے اور اُن کی دُعائوں سے مَیں صحت یاب بھی ہوگیا لیکن مَیں گنہگار ہُوں ۔ ممکن ہے اُن کے لئے میری دُعائیں کام نہیں آئیں۔شاید اللہ تعالی اپنے پیارے بندوں کے بارے میں مجھ جیسے گنہگاروں کی دُعائیں قبول نہیں کرتا ؟لیکن پاکستان اور بیرونِ پاکستان اب بھی اُن کے لاکھوں چاہنے والے اُن کے لئے دُعا گو ہیں! ۔
٭…٭…٭