ہفتہ‘ 9؍ جمادی الثانی 1442ھ‘ 23؍ جنوری 2021ء
’’ہتھ ہولا رکھیں‘‘ پٹرول بحران کمشن کی رپورٹ پر صحافیوں کے بار بار سوال پر اسد عمر جھنجھلا گئے
اقتدار میں آنے سے پہلے سے اسد عمر کا ماہر معیشت کی حیثیت سے بڑا چرچا سُنا تھا ، یہ ان دنوں کی بات ہے جب ان کے بڑے بھائی محمد زبیر چیئرمین نجکاری کمیشن اور مسلم لیگ (ن) کی طرف سے گورنر سندھ کے منصب پر فائز تھے۔ انہی دنوں اسد عمر کو ان کی پارٹی کی طرف سے ملکی معیشت کے لیے مسیحا کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا۔ پھر اسد عمر کو بھی وزارت کا قلمبندان مل گیا تو قوم ’’ماہر معیشت‘‘ کی کارکردگی کی منتظر ہوئی اور بات ’’ہتھ ہولا رکھنے‘‘ تک آ گئی۔ ہوا یوں کہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں نے پٹرول بحران کمیشن پر بار بار سوال کیا تو اسد عمر جھنجھلا اٹھے۔ ہر پاکستانی اسد عمر کے حسبی نسبی اور وزارتی احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے عرض پرداز ہے کہ آپ بھی اپنی حکومت کو عوام پر ’’ہتھ ہولا رکھنے‘‘ کا مشورہ دیں تاکہ صحافیوں کو ’’ہتھ ہولا رکھنے‘‘ کا کہنے کی نوبت ہی نہ آئے۔ ویسے ہم بھی صحافیوں سے یہ سفارش کریں گے کہ …؎
وہ کہتے ہیں رنجش کی باتیں بھلا دیں
محبت کریں ، خوش رہیں ، مسکرا دیں
’’وزارت‘‘ ہو گر جاودانی تو یاررب
تیری سادہ دنیا کو جنت بنا دیں
تم افسانہ قیس کیا پوچھتے ہو
ادھر آئو ، ہم تم کو لیلیٰ بنا دیں
٭٭٭٭٭
ٹرمپ ، بائیڈن کے لئے بند لفافے میں خط میں چھوڑ گئے
خط کے مندرجات کا صرف جوبائیڈن کو ہی علم ہے۔ سابق امریکی صدر کے پریس سیکرٹری نے بتایا کہ خط کے مندرجات شیئر نہیں کیے جا سکے۔ ٹرمپ نومنتخب امریکی صدر کے لیے یقینا نیک خواہشات کا خط ہی چھوڑ کر گئے ہونگے اور اپنے رویے پر نادم بھی ہوئے ہونگے۔ انتقال اقتدار کی تقریب میں اپنی عدم شرکت کا جواز بھی گھڑ لیا ہو گا ، اب جوبائیڈن بھی کچی گولیاں کھیلنے والے تو نہیں کہ ٹرمپ کے خط کو آئینی دستاویز سمجھ لیں یا اس کے تجربات کی روشنی میں خارجہ و داخلہ پالیسی بنائیں کیونکہ ٹرمپ نے تو امریکہ کے اندر گورے ، کالے کی تفریق بھی پیدا کر دی تھی ، پھر آخری دنوں میں جو کچھ کیا ، ’’کیپٹل ہل ‘‘ کا واقعہ امریکی تاریخ میں رقم ہو چکا ہے۔ ایسے حالات میں ٹرمپ کے خط کو کوئی نیک شگون تو نہیں سمجھا جا سکتا۔ یقینا خط میں ٹرمپ نے اپنے دل کا حال لکھا ہو گا کہ …؎
جب نہ مانا دل دیوانہ‘ قلم اٹھا کے جان جاناں
خط میں نے تیرے نام لکھا‘ حال دل تمام لکھا
٭٭٭٭٭
پولیس گاڑیوں کا پٹرول کارکردگی سے مشروط ہو گا
پولیس کی کارکردگی پہلے بھی اتنی بری نہیں ، ناکے پر نہ رکنے والے کو گولی مار دی جاتی ہے ، تھانے میں روایتی تشدد سے ہلاکتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ایف آئی آر کے اندراج کے لئے دھکے کھانا پڑتے ہیں ، ملزموں کی گرفتاری کے لیے پولیس وین میں پٹرول ڈلوانا پڑتا ہے۔ پولیس اہلکاروں کی جیبیں گرم کرنا پڑتی ہیں ، اب اگر حکومت کسی تھانے کا پٹرول صرف اس وجہ سے بند کر دیتی ہے کہ کارکردگی اچھی نہیں تو اس سے متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کی ’’صحت‘‘ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ البتہ تھانے آنے والے ہر سائل کو یہ ’’بپتا‘‘ سنائی جائے گی کہ حکومت نے پٹرول بند کر دیا ہے۔ اب ظاہر ہے ہم اپنی جیب سے تو نہیں ڈلوا سکتے۔ پھر محرر ، ایس ایچ او ، متعلقہ تفتیشی افسر کی عوام کے لیے ’’خدمات‘‘ مہنگی ہونے کے ساتھ ساتھ پٹرول کے نرخ بھی اس میں شامل کئے جائیں گے لہٰذا اگر حکومت یہ سوچتی ہے کہ پٹرول کا جھانسہ دے کرپولیس کی کارکردگی بہتر بنائی جا سکتی ہے تو یہ صرف خام خیالی ہے۔ اگر حکومت کسی تھانے کا ماہانہ پٹرول بند بھی کر دے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ ہر ’’ذیل‘‘ کا تھانیدار، ہر تھانے کا ایس ایچ او ، ہر سرکل کا ایس ڈی پی او مالی لحاظ سے اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ وہ صرف تھانے کی پولیس وین ہی نہیں بلکہ کئی اعلیٰ افسروں کی ذاتی گاڑیاں بھی چلاتا ہے اور عوام و خواص اس ’’کارخیر‘‘ کے بارے میں خوب آگاہ ہوتے ہیں ۔ اس لیے حکومت جتنے مرضی قانون بنا لے۔ ایس ایچ او کی مرضی ہو گی تو ایف آئی آر درج ہو گی ورنہ ڈی پی او سے لے کر آئی جی تک اپنا زور لگا کے دیکھ لیں تو پاکستان میں سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کا بھرم کھل جائے گا۔
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
٭٭٭٭٭
سندھ میں جعلی اکائونٹس کے ذریعے رقم نکالنے کا سکینڈل 10 ارب تک پہنچ گیا
پتہ نہیں ، یہ کون بھوت ، بلائیں ہیں جو جعلی اکائونٹس کے ذریعے بھاری رقوم مسلسل ہڑپ کیے جا رہی ہیں۔ ہزاروں افراد کو سرکاری ملازم ظاہر کرکے پنشن اور دیگر بلوں کی ادائیگی کی گئی جس کے نتیجہ میں رقم 2 ارب سے بڑھ کر 10 ارب تک پہنچ چکی ہیں ، ’’فیض یاب‘‘ ہونے والوں میں شیخ دھاریجو، انڑ اور سید خاندان شامل ہیں۔ سندھ حکومت کے پاس یقیناً اس حوالے سے بھی جواز ہو گا اور وہ 10 ارب کے سکینڈل کا دفاع کرنے کے لیے اپنے ترجمانوں کو کیمروں کی روشنیوں کے سامنے میدان میں اتارے گی۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ قومی خزانے کو شیرِمادر سمجھ کر ہضم کیا جا رہا ہے ہم پھر بھی دودھ کے دھلے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں سندھ حکومت کا دامن اگر صاف ہے تو اس کو نیب کے ساتھ بھرپورتعاون کرنا چاہئے تاکہ نہ صرف ملزم کٹہرے میں آئیں بلکہ ان سے قومی خزانے کی پائی پائی بھی وصول کی جائے ورنہ قوم سمجھے گی کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے اور بقول شاعر …؎
سر کے بکھرے بال ہیں ، کان کا ٹوٹا بالا ہے
جرأت ہم پہچان گئے ، دال میںکچھ کچھ کالا کالا ہے