• news
  • image

پولیس اور سیاست

1857 کی جنگ آزادی کے بعد برطانوی پارلیمنٹ نے ہندوستان کیلئے 1861 کا پولیس ایکٹ منظور کیا۔ اس پولیس ایکٹ کا مرکزی تصور یہ تھا کہ ہندوستان پر جو برطانوی سیاسی نظام رائج ہے اس کو جاری و ساری رکھا جائے۔ عوام محکوم اور غلام رہیں اور دوبارہ کسی آزادی کی تحریک کا حصہ نہ بن سکیں۔ پولیس کا یہ ایکٹ عوام کی جان ومال کے تحفظ سے زیادہ سیاسی مصلحتوں پر مبنی تھا۔اس پولیس ایکٹ میں عوام کی خدمت اور انکے بنیادی حقوق کا تحفظ شامل نہیں تھا۔ہندوستان کے عوام پولیس ایکٹ کی وجہ سے جبر اور خوف کے سائے میں اپنی زندگی بسر کرتے رہے۔ پاکستان کی آزادی کے بعد پولیس ایکٹ کو تبدیل کرنے کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش نہ کی گئی۔انگریز آخرکار ہندوستان کو چھوڑ کر چلے گئے ۔ انکے جانے سے جو خلا پیدا ہوا اس کو پاکستان کے جاگیرداروں سرمایہ داروں اور سول ملٹری بیوروکریسی نے پر کیا۔ان طبقات کے مفادات کا تقاضا یہ تھا کہ پولیس ایکٹ میں کوئی جوہری تبدیلی نہ کی جائے تاکہ وہ پولیس کو اپنے ذاتی گروہی اور سیاسی مفادات کیلئے استعمال کرتے رہیں۔ پاکستان میں مغربی جمہوری پارلیمانی نظام بھی جاری رکھا گیا اس پارلیمانی نظام کو چلانے اور قائم رکھنے کیلئے بھی ضروری تھا کہ پولیس ایکٹ میں کسی قسم کا رد و بدل نہ کیا جائے تاکہ ’’سٹیٹس کو‘‘ قائم رہے اور استحصالی طبقات اپنے مفادات حاصل کرتے رہیں اور حسب ضرورت پولیس کو اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے استعمال کر سکیں۔ تاریخ کا ریکارڈ شاہد ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں ہر انتخاب سے پہلے اپنے پارٹی منشوروں میں پولیس اصلاحات کے دعوے کرتی رہیں مگر جب ان کو عوام نے منتخب کیا وہ اقتدار میں آگئے تو انہوں نے اقتدار کی مصلحتوں کے تحت پولیس کے ایکٹ میں تبدیلی نہ کی۔سیاسی جماعتوں کا یہ تضاد کھل کر عوام کے سامنے آ چکا ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ عوام اس صورتحال کو جانتے ہوئے بھی کسی قسم کی مزاحمت کیلئے آمادہ نظر نہیں آتے۔ عوام کی اس بے حسی کی وجہ سے پولیس آج بھی سیاستدانوں اور دوسرے طاقتور طبقات کی آلہ ٔکار بنی ہوئی ہے۔ 
پولیس میں بھرتی میرٹ اور شفافیت کے اصول کی بجائے سفارش کی بنیاد پر کی جاتی رہی ہے۔پولیس میں سیاسی مداخلت آج بھی جاری ہے جس کی وجہ سے پولیس سروس ایک پروفیشنل فورس نہ بن سکی۔ اگر پولیس کو آزاد اور خودمختار بنا دیا جاتا اور اس میں سیاسی مداخلت نہ کی جاتی تو آج پاکستان کی فوج کی طرح پولیس کا شمار بھی دنیا کی کامیاب پولیس فورسز میں ہوتا۔پاکستان میں پولیس کی تاریخ افسوس ناک ہی رہی ہے۔ آج بھی ایف آئی آر رشوت کے بغیر درج نہیں کی جاتی ۔ شہریوں کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کیے جاتے ہیں پولیس کے زیر حراست افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ لوگوں کو پولیس مقابلہ کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ پولیس کے اندر احتساب کا کوئی نظام نہیں ہے۔ پاکستان میں قانون کی طاقت کے بجائے طاقت کا قانون رائج ہے جو جتنا بااثر ہے اتنا ہی وہ پولیس پر اپنا اثر ڈال کر لوگوں کو انتقام کا نشانہ بناتا ہے اور اپنے مفادات کیلئے پولیس کو استعمال کرتا ہے۔ آج بھی اگر پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتوں تحریک انصاف مسلم لیگ نون اور پی پی پی کے منشوروں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں پولیس اصلاحات کے بارے میں بلند بانگ دعوے نظر آتے ہیں۔- حکمران جماعت تحریک انصاف کے رہنما عمر ان خان نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ جس طرح انہوں نے خیبر پختون خواہ میں پولیس کو آزاد اور خود مختار بنایا ہے۔ اسی طرح وہ پنجاب میں بھی پولیس کو غیر سیاسی اور آزاد بنائینگے تاکہ پولیس عوام کی جان و مال کا تحفظ کر سکے اور جرائم پر قابو پا سکے۔
عمران خان اپنی حکومت کی نصف مدت پوری کر چکے ہیں مگر ابھی تک وہ پنجاب کی پولیس میں اپنے منشور کے مطابق اصلاحات لانے سے قاصر ہیں جس کی بڑی وجہ پنجاب کے با اثر اراکین اسمبلی کا دباؤ ہے جن کی وجہ سے انکی حکومت چل رہی ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین اپنے انتخابی حلقوں میں پولیس کی مدد سے ہی اپنا سیاسی تسلط قائم رکھتے ہیں ۔ ہر ریاست میں پولیس کا ادارہ بنیادی اور کلیدی اہمیت کا حامل ہوتا ہے جس کی وجہ سے ریاست کا کاروبار پرامن طور پر چلایا جا سکتا ہے اور جرائم پر کنٹرول کیا جاتا ہے مگر افسوس پاکستان میں پولیس کی اہمیت کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا اور تاریخ میں ہم نے اکثر دیکھا کہ جب بھی کوئی بحران پیدا ہوا تو پولیس اس میں ناکام نظر آئی اور ہر حکومت کو امن و امان کے قیام کیلئے فوج کو ہی طلب کرنا پڑتا رہا-
جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور حکومت میں پولیس سروس میں بامعنی اور بامقصد اصلاحات لانے کیلئے بہت سنجیدہ کام کیا۔پولیس کمشن کی سفارشات کیمطابق پولیس کو غیر سیاسی آزاد خودمختار اندرونی احتساب اور عوام کے کنٹرول میں لانے کیلئے پولیس ایکٹ 2002 منظور کیا گیا۔ پولیس کے تمام ماہرین نے اس ایکٹ سے اتفاق کیا۔کچھ عرصہ یہ ایکٹ بڑی کامیابی کے ساتھ چلتا رہا مگر جب جنرل پرویز مشرف نے2002 میں انتخابات کرائے اور سیاسی حکومت تشکیل دی تو سیاسی مصلحتیں آڑے آئیں اور اس ایکٹ پر پوری طرح عمل درآمد نہ کیا گیا بلکہ اس میں ترامیم کی سفارش کی گئی۔جنرل پرویز مشرف کے بعد آنے والے کسی سیاسی منتخب حکمران نے پولیس ایکٹ 2002 کو نافذ نہ کیا۔پولیس کی اندرونی کمزوریوں اور خامیوں کی وجہ سے پاکستان کا کریمنل جسٹس سسٹم ہی برباد ہو کر رہ گیا۔پاکستان کی گورننس کو چلانا بھی محال ہو گیا۔ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے اس صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنے کا ارادہ کیا۔ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے پولیس ریفارمز کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں نیک نام اور اہل نوسابق آئی جی پولیس شامل کیے گئے اور موجودہ آئی جی پولیس کے افراد کو بھی اس کمیٹی کا رکن بنایا گیا ۔ اس کمیٹی نے پولیس ایکٹ 2002 کی روشنی میں نئے تجربات اور مشاہدات کے مطابق 5 ماہ کے اندر اپنی سفارشات مرتب کرلیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ موجودہ حکومت ان سفارشات پر عمل درآمد کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتی جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں ایک ایسا پارلیمانی جمہوری سیاسی نظام رائج ہے جس میں اراکین اسمبلی بڑے طاقتور اور مضبوط ہوتے ہیں حکومت بنانے اور توڑنے کا اختیار انکے پاس ہوتا ہے۔ اراکین اسمبلی کو اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کے تحفظ کیلئے پولیس کی امداد کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ اراکین اسمبلی پولیس میں اصلاحات کی مخالفت کرتے رہے ہیں تاکہ سٹیٹس کو قائم رہے اور پولیس کا نظام انکے اپنے کنٹرول میں رہے اور وہ بلا رکاوٹ اپنے مفادات کا تحفظ کرتے رہے اور اپنے اپنے علاقوں میں انکی حکمرانی قائم رہے۔موجودہ سیاسی اور جمہوری نظام عوام دوست پولیس نہیں دے سکتا لہذا اسے تبدیل کرنا قومی اور عوامی مفاد میں ہے۔ عوام بیدار باشعور اور منظم ہو کر عوام دشمن پولیس قوانین سے نجات حاصل کر سکتے ہیں اور ایک ایسی پولیس فورس تشکیل دی جا سکتی ہے جو بااثر افراد کی بجائے عوام کے مفادات کا تحفظ کر سکتی ہو- 

epaper

ای پیپر-دی نیشن