نواز شریف کی ہدایت پر، سینٹ الیکشن لڑنے کا فیصلہ: بلاول عدم اعتماد کی تجویز لائیں پی ڈی ایم اجلاس میں غور کرینگے: مریم نواز
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) نواز شریف کی ہدایات کی روشنی میں مسلم لیگ (ن) نے سینٹ الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ منگل کو مسلم لیگ (ن) پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں اس فیصلے کی توثیق بھی کر دی گئی۔ یہ اہم پیشرفت اس وقت ہوئی جب پارٹی کی نائب صدر مریم نواز نے شرکاء اجلاس کو اس حوالہ سے والد کا اہم پیغام پہنچایا۔ نائب صدر مریم نواز نے خصوصی طورپر شرکت کی۔ اجلاس میں پارٹی سے تعلق رکھنے والے دونوں ایوانوں کے ارکان نے شرکت کی۔ مریم نواز شریف نے کہا کہ وقت نے ثابت کیا کہ نواز شریف کا بیانیہ ہی نجات کا بیانیہ ہے ۔نواز شریف کا بیانیہ آئین، پارلیمان، جمہوریت، عوام اور ان کے نمائندوں کی عزت کا بیانیہ ہے۔ نواز شریف اس بیانیہ کے لیے تاریخی قربانیاں دے رہے ہیں، وہ اس مقصد سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ پوری قوت سے پارلیمان کے اندر عوام کی آواز اٹھائیں گے۔ کئی چہروں والی اس حکومت سے ہماری کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔ عوام اور ان کی عزت کے لیے میدان میں نکلے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسی نااہل، ناکام اور بدعنوان حکومت نہیں آئی۔ اقوام متحدہ نے بھی پی آئی اے سے سفر پر پابندی لگا دی ہے جو پاکستان کی عالمی بدنامی کا باعث ہے۔ براڈ شیٹ نے حکومت اور جعلی احتساب کے ٹھیکیداروں کا اصل چہرہ بے نقاب کردیا۔ دنیا میں آج تک کسی سفارت خانے کا اکاؤنٹ اس طرح منجمد نہیں ہوا۔ جعلی حکمرانوں کا خیال تھا کہ وہ جبر اور میڈیا کی زباں بندی سے براڈشیٹ کا معاملہ دبا دیں گے لیکن اللہ تعالی کا کرنا کچھ اور ہوا۔ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے جبکہ حکمران فرنس اور ڈیزل سے مہنگی بجلی بنا کر اپنا کمیشن بنانے میں مصروف ہیں۔ نواز شریف نے پارٹی قائدین، رہنماؤں اور کارکنان کو سلام بھیجا ہے اور ان کی ثابت قدمی کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ یہ حکومت کسی طور پر نہیں چل سکتی، اس کے جانے میں ہی پاکستان کی نجات ہے۔ ہم پارلیمان میں بھرپور کردار ادا کرتے رہیں گے۔ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکی ہے۔ ن لیگی ارکان پارلیمان نے نوازشریف کے بیانیے سے مکمل اظہار یکجہتی کیا۔ انہوں نے کہاکہ راتوں رات پارٹیاں بنانے اور وفاداریاں بدلنے کا وقت گزر گیا، حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکی ہے۔ مریم نواز نے ارکان پارلیمان کو ہدایت کی کہ وہ ایوان میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے رہیں اور حکومت کو قومی اور عوامی ایشوز پر ٹف ٹائم دیں۔ حکومت سے اب کوئی بات نہیں ہو سکتی، اسمبلیوں سے استعفے دینے سے متعلق فیصلہ پی ڈی ایم کرے گی جو تمام ہی جماعتیں تسلیم کریں گی۔ اجلاس میں یہ قرارداد بھی منظور کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ اجلاس ملک میں مہنگائی کی تازہ لہر پر شدید احتجاج کرتا ہے جو عوام کی برداشت سے باہر اور ان پر ظلم ہے۔ ایک طویل قرارداد کے ذریعہ قرضوں کے حصول کیلئے قومی اثاثے گروی نہ رکھنے، بجلی کے حالیہ بریک ڈائوں کی تحقیقات ، مولانا فضل الرحمن کے خلاف نیب کارروائیاں روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ حکومت تباہی کی علامت بن چکی ہے جو تباہی کے ایجنڈے پر کاربند ہے اور اس تباہی کے نتیجے میں اندرون ملک معیشت، کاروبار، روزگار کا دھڑن تختہ ہونے کے بعد اب اداروں کی تباہی کا عمل جاری ہے۔ اجلاس پاکستان کی ’ساورن گارنٹی‘ تسلیم نہ کئے جانے کی اطلاعات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے معاشی دیوالیہ پن کی علامت قرار دیتا ہے۔ ہم اسے موجودہ سلیکٹڈ اور غیرنمائندہ ناجائز حکومت پر عالمی سطح پر عدم اعتماد کا ثبوت تصور کرتے ہیں جو ایک ایٹمی پاکستان کے لئے ہرگز نیک فال نہیں بلکہ خطرے کی سنگین گھنٹی ہے۔ شہبازشریف، حمزہ شہباز، خواجہ آصف اور خورشید شاہ کی ناحق گرفتاری اور قیدوبند کی قابل مذمت، حرکتیں حکومتی بوکھلاہٹ اور ‘ووٹ کو عزت دو‘ بیانیے کی کامیابی کا ثبوت ہے۔ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ فارن فنڈنگ، 23 خفیہ اکاونٹس، مالم جبہ، ہیلی کاپٹرکیس، بی آر ٹی، بلین ٹری سونامی، آٹا، چینی چوری کے مقدمات کی روزانہ بنیادوں پر سماعت کی جائے اور ان تمام مقدمات پر فیصلے دئیے جائیں۔مریم نواز نے کہا ہے کہ وقت آنے پر ضرور لانگ مارچ بھی ہو گا اور استعفے بھی دیئے جائیں گے۔ کسی کے کہنے پر یا دباؤ میں آکر فیصلہ نہیں کریں گے۔ حکومت تعاون کیلئے منتیں کر رہی ہے۔ عدم اعتماد کی تجویز پی ڈی ایم کے اجلاس میں زیر غور آئے گی۔ حکومت ہمارے ارکان کی نہیں بلکہ اپنے ارکان کی فکر کرے۔گزشتہ روز پارلیمنٹ ہائوس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کو اب این آر او نہیں ملے گا۔ بلاول عدم اعتماد کی تجویز لائیں پی ڈی ایم کے اجلاس میں عدم اعتماد کا معاملہ زیر بحث لائیں گے۔ اتحاد کے اجلاس میں لانگ مارچ کا فیصلہ بھی جلد کیا جائے گا۔ مریم نواز نے کہا کہ یہ دوسروں کو قرض لینے کا کہتے تھے لیکن خود انہوں نے تاریخی قرضوں کے انبار لگا دیے ہیں۔ پاکستان کی جو ناکامی 73 برس میں نہیں ہوئی وہ ان ڈھائی سالوں میں ہوگئی۔ میڈیا کنٹرولڈ ہے جو چاہیں دکھائیں۔ لیکن اصل حالات وہ ہیں جو عوام کے گھروں کے ہیں۔ حکومت کی نالائقی اور نااہلی نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ پہلے تو ڈگریوں کے معاملہ پر اپنے پائلٹس کو بدنام کیا اور پھر لیز کی عدم ادائیگی کی وجہ سے پی آئی اے کا جہاز ملائیشیا میں روک لیا گیا جبکہ دعویٰ تھا کہ ہم سبز پاس پورٹ کی عزت کرائیں گے لیکن اب سبز پاسپورٹ کو کوئی ماننے کو تیار ہی نہیں ہے۔ سینٹ انتخاب کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ چیئرمین سینٹ کے انتخاب چوری ہونے کا واقعہ کوئی اکیلا نہیں بلکہ اسی طرح 2018 کے انتخابات بھی چوری ہوئے تھے ۔ یہ اپوزیشن کی ناکامی نہیں بلکہ ہے ان لوگوں کی ناکامی ہے جنہوں نے یہ کام کیا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں مریم نواز نے کہا کہ یہ مسلم لیگ (ن) اور ان کے لوگوں سے چاہے کتنے بھی رابطے کرلیں، اب ان کو اپنی پڑگئی ہے، مسلم لیگ (ن) محفوظ ہے، مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ کے لیے سارا پاکستان اپلائی کرے گا لیکن ان کے ٹکٹ کے لیے کوئی اپلائی نہیں کرے گا۔اگر تفصیل بتا دوں کہ یہ کس طرح اپوزیشن کی منتیں کر رہے ہیں تو آپ حیران رہ جائیں گے لیکن اپوزیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ ان کے ساتھ بات نہیں کرنی۔ مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے مشترکہ اجلاس میں شہباز شریف اور خواجہ آصف کی خالی نشستوں پر ان کی تصاویر رکھی گئی تھیں۔ واضح رہے کہ پارٹی کے صدر شہباز شریف اور رہنما خواجہ آصف، دونوں نیب کی حراست میں ہیں۔ ایک ذریعہ کے مطابق دوران اجلاس، شرکاء کی اکثریت نے پیپلز پارٹی کی طرف سے وزیر اعظم عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعہ ہٹائے جانے کی تجویز پر کھل کر تحفظات کا اظہار کیا اور موجودہ حالات میں اسے زمینی حقائق کے خلاف اور غیر منطقی قرار دیا۔
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) سابق وزیراعظم اور پیپلزپارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم متحد ہے۔ انہوں نے کہا مسلم لیگ (ن) کو تحریک عدم اعتماد پر منا لیں گے۔ ہم مریم نواز کو بھی منا لیں گے۔ 4فروری کو پی ڈی ایم کا اجلاس بلایا ہے۔ پی ڈی ایم میں مکمل ہم آہنگی ہے‘ تمام جمہوری راستے استعمال کریں گے۔ ایوان کو پرامن اور خوشگوار رکھنا حکومت کا کام ہے۔ حکومتی وفد نے اپوزیشن سے رابطہ کیا ہے۔ سپیکر کو ایک خط لکھا گیا کہ آئینی وقانونی حق نہیں دیا جارہا۔ ہر رکن کو اپنی آواز بلند کرنے کی اجازت ملنی چاہیے۔ سپیکر ایوان کا سربراہ ہے۔ حکومت ہمارے بولنے کے حق کو سلب نہ کرے۔ ملک کو آرڈیننس فیکٹری بنا دیا گیا ہے۔