لال قلعہ پر سکھوں کا مذہبی پرچم ، یوٹیلیٹی سٹورز اور چودھری پرویز الٰہی!!!!
بھارت کے حکمرانوں کے توسیع پسندانہ عزائم سے صرف خطے کو امن ہی خطرات لاحق نہیں ہیں بلکہ بھارت کو اندرونی طور پر بھی خطرات کی زد میں ہے۔ ایک طرف بھارتی یوم جمہوریہ کو کشمیری یوم سیاہ کے طور پر منا رہے ہیں تو دوسری طرف دہلی کے لال قلعہ پر کسانوں نے سکھوں کا مذہبی پرچم لہرا دیا ہے۔یہ بھارتی حکومت کی نفرت انگیز پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ اس کے یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ بھی کہا جا رہا ہے۔ پاکستان دہائیوں سے بین الاقوامی سطح پر کشمیریوں کا مقدمہ لڑتے ہوئے دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہے کہ بھارت نے طاقت کے زور پر مقبوضہ کشمیر کے لاکھوں مسلمانوں کو حق خودارادیت سے محروم کر رکھا ہے گوکہ دنیا نے اپنے مفادات کی وجہ سے کبھی اس مسئلے پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا لیکن کسی کی عدم توجہی کے باعث حقیقت چھپ تو نہیں سکتی گوکہ بھارت میں کسانوں کا احتجاج ان کا اندرونی معاملہ ہے لیکن درحقیقت یہ اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے جس کے ذریعے دہائیوں سے بھارت کشمیریوں پر ظلم کر رہا ہے۔ نریندرا مودی کے دور میں یہ ظلم انتہا پر پہنچ چکا ہے۔ لال قلعے پرسکھوں کا مذہبی پرچم درحقیقت بھارت کی طرف سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے چہرے پر کبھی نہ مٹنے والا بدنما داغ ہے۔ جو کچھ بھارت کے تعصب پسند حکمرانوں نے مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن اور کرفیو کے دوران کیا وہی حربے وہ دہلی میں کسانوں کے خلاف اختیار کر رہے ہیں۔ مظاہرین پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا جبکہ دہلی میں انٹر نیٹ سروس بھی بند کر دی گئی۔ انٹر نیٹ کی بندش کا سب سے بڑا مقصد رابطے کے ذرائع بند کرنا ہے یہی حرکت مقبوضہ کشمیر میں کی گئی ہے۔ بھارتی حکومت یہ کا رویہ ظاہر کرتا ہے کہ وہاں جمہوریت کے لبادے میں آمریت قائم ہے۔ کسانوں کو ان کے جائز حق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر مظاہرین تمام رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے لال قلعہ پر سکھوں کا مذہبی پرچم لہرا کر موجودہ دور کے ہٹلر نریندرا مودی کو یہ پیغام پہنچایا ہے کہ اگر ان کی آواز نہ سنی گئی، جائز مطالبات کو تسلیم نہ کیا گیا تو وہ انتہائی اقدام پر مجبور ہوں گے۔ دہلی پولیس نے مظاہرین پر بدترین تشدد کرتے ہوئے پیش قدمی روکنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن کسانوں نے بھارت کے نام نہاد یوم جمہوریہ کو یوم آمریت بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ جھڑپوں میں ایک شخص کی موت واقع ہوئی ہے اور کسان رہنماؤں نے کا دعویٰ ہے کہ یہ موت پولیس کی گولی لگنے سے ہوئی ہے۔ کسانوں پر تشدد اور کشمیری مسلمانوں پر ہونے والے مظالم میں ایک قدر مشترک ہے کہ بھارتی حکمران حقوق کے لیے بلند ہونے والی آواز کو ہمیشہ دباتے چلے آئے ہیں نریندرا مودی کی حکومت نے اسے اگلے مرحلے میں داخل کیا ہے یعنی ہندوتوا کے جنون میں پاگل ہندوانہ سوچ کو تھوپنے کی کوششیں جاری ہیں۔ ایسے متعصب حکمرانوں کی موجودگی میں کسی بھی ایٹمی طاقت کو بہت بڑا خطرہ سمجھا جا سکتا ہے۔ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم صرف پاکستان اور بھارت ہی نہیں بلکہ خطے کے امن کے لیے بھی خطرناک ہیں۔ پاکستان تو اس تنگ نظر اور متعصب ہمسائے کے ساتھ گذارہ کر ہی رہا ہے لیکن دنیا کو یہ سمجھ جانا چاہیے کہ بھارت کو ایسے ہی نظر انداز کیا جاتا رہا تو یہ دنیا کے امن کو خطرہ ہے۔ جس ملک کی آدھی فوج ذہنی امراض کا شکار ہو جس ملک کے حکمرانوں کو اپنے مذہب کے علاوہ کچھ دکھائی نہ دے اور وہ ملک ایٹمی طاقت بھی ہو تو پھر ایسے ملک کی حمایت کرنے والوں کو اپنی بربادی کے لیے تیار رہنا چاہیے پاکستان ایک پرامن ملک کی حیثیت سے دنیا کو خبردار کر رہا ہے، پاکستان ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کر رہا ہے اور پاکستان ہمیشہ کشمیریوں کے ساتھ ہے اور ان کی آزادی کا مقدمہ ہر فورم پر لڑتا رہے گا۔
بھارت کے یوم جمہوریہ کو مقبوضہ کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس اور دیگر جماعتوں کی اپیل پر یوم سیاہ کے طور پر منایا گیا ہے۔یہ دن منانے کا مقصد دنیا کو قابض بھارتی افواج کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بے گناہ کشمیریوں کی ہلاکتوں اور مظالم کی طرف توجہ دلانا ہے۔ بھارت کے یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہوئے آزاد کشمیر میں بھی احتجاج کیا گیا جب کہ مظفرآباد سمیت مختلف شہروں میں مظاہروں کے ساتھ ساتھ لائن آف کنٹرول کے قریب بھی کشمیریوں کی بڑی تعداد نے بھارت کے خلاف سیاہ پرچم تھامے احتجاج کیا۔ کشمیریوں کا یہ احتجاج سوئے ہوئے عالمی ضمیر کو جگانے کی ایک چھوٹی سی کوشش ہے کیونکہ جو عالمی ضمیر قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر نہیں جاگتا وہ سیاہ جھنڈوں پر کیسے جاگ سکتا ہے۔ وہ عالمی ضمیر جو خواتین کی بے حرمتی اور معصوم بچوں پر ہونے والے مظالم پر نہیں جاگتا وہ قراردادیں جمع کرانے سے کیسے جاگ سکتا ہے۔ بھارت پاکستان میں امن و امان کو تباہ کرنے اور بلوچستان میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے علیحدگی کی تحریکوں کی پشت پناہی کر رہا ہے اس کے اپنے لال قلعہ پر لہرایا جانے والا پرچم یہ ثابت کر رہا ہے کہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی سازشیں کرنے کے بجائے اپنے گھر پر توجہ دو۔
یوٹیلیٹی سٹورز حکام کے مطابق فروری اور مارچ کیلئے پینتیس ہزار میٹرک ٹن چینی کی خریداری کیلئے دیا جانے والا ٹینڈر زائد بولی کے باعث اسکرئپ کر دیا گیا ہے۔ چھٹی مرتبہ ایسا ہوا ہے اسکرئپ کیا گیا ہے۔مقامی شوگر ملز کی طرف سے چینی کی فی کلو قیمت کی کم از کم بولی بانوے روپے دی گئی جبکہ ٹرانسپورٹ اور پیکنگ کے چارجز کے بعد سٹورز کو چینی کی قیمت ایک سو دو یا ایک سو تین روپے فی کلو میں پڑتی۔ حکام کے مطابق مہنگی چینی کی خریداری کے بعد فی کلو چینی پر پینتیس روپے کی سبسڈی ادا کرنا پڑتی۔ حکومت کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ چینی سستے داموں امپورٹ کرے اور امپورٹڈ چینی کو سی ایس ڈی مارکیٹس اور یوٹیلیٹی سٹورز پر فروخت کرے میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ جو مرضی کر لیں اس سے بہتر حکمت عملی کوئی نہیں ہے لیکن حکومت کے معاشی جادوگر دو سال سے زائد عرصے میں مارکیٹ سمجھنے میں مکمل طور پر ناکام رہنے کے بعد آج بھی غلطیاں دہرا رہے ہیں اب یوٹیلیٹی سٹورز حکام نے جس وزیر کے سامنے معاملہ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے پہلے بھی عوام وزیر موصوف کی بہترین حکمت عملی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں اور پچپن سے ساٹھ روپے فی کلو ملنے والی چینی ایک سو پندرہ روپے تک خرید چکے ہیں۔ دیکھتے ہیں اس مرتبہ وہ کس حکمت عملی کے تحت کام کرتے ہیں لیکن مجھے کسی اچھے فیصلے کی ہرگز توقع نہیں ہے۔
سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کہتے ہیں کہ چالیس سال میں پنجاب کے اتنے برے حالات نہیں دیکھے۔ چودھری صاحب حکومت کے اہم اتحادی ہیں ان کے اس بیان پر یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ وہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے ساتھ مل گئے ہیں یا وہ نظام کا حصہ نہ ہونے کی وجہ سے ناراض ہیں وہ تو ملک کے سب سے بڑے صوبے کی اسمبلی کے سپیکر ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اتنے سخت الفاظ استعمال کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو ایسے بیانات پر تحقیقات ضرور کرنی چاہییں کیونکہ پنجاب میں خرابی کا اثر وفاقی حکومت کی کارکردگی پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ چند روز قبل ہی لاہور کو دنیا کا آلودہ ترین شہر بھی کہا گیا ہے۔ لاہور میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر ہیں یہ کچرا بھی آلودگی میں اضافے کا باعث ہے۔ لاہور کی صفائی کا ہدف جنہیں دیا گیا ہے وہ اس سے پہلے مختلف وزارتوں کی ناکامی کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں ان حالات میں صفائی کیا خاک ہونی ہے۔ دوسری طرف پرویز الٰہی سے پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی نے ملاقات میں حکومت کی شکایتیں لگائی ہیں حالانکہ انہیں یہ شکایتیں اپنی جماعت کے بڑوں سے کرنی چاہییں۔ جہاں صوبے کے چیف ایگزیکٹیو نون لیگ کے اراکینِ صوبائی اسمبلی سے ملتے ہیں وہاں کچھ وقت اپنے اراکین کو بھی دینا شروع کریں تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی وعدے نبھانا اور اپنے اراکین کے ساتھ کھڑا ہونا سیکھے یاد رکھیں کہ انتخابات میں پھر انہی لوگوں نے عوام کے پاس جانا ہے اگر جماعت اپنے نمائندوں کو بھی لفٹ نہیں کرائے گی تو وہ عوام کے پاس کیا منہ لے کر جائیں گے۔