سلیم مانڈوی والا نے 41 چیک وصول ، 144 ملین روپے لیے،ڈپٹی پراسیکیوٹرنیب
اسلام آباد(نا مہ نگار)احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی عدالت نے سلیم مانڈوی والا کے مبینہ بے نامی طارق محمود کے اکانٹس منجمند ہونے کے خلاف درخواست پر دلائل کیلئے سماعت ملتوی کردی۔جمعرات کو سماعت کے دوران طارق محمود کی جانب سے شاہ خاور ایڈوکیٹ عدالت میں پیش ہوئے اور کہاکہ جورجسٹرڈ کمپنیاں ہیں ان کے اکانٹس کو نیب جعلی اکانٹس کس بنیاد پر کہہ رہا ہے؟نیب نے سلیم اور ندیم مانڈوی والا کے ٹیکس میں رقم ظاہر نہ کرنے کا اختیار کس بنیاد پر اٹھایا؟مانڈوی والا کے خاندانی کاروبار کو منی لانڈرنگ کہہ رہے ہیں یہ نیب کا کیس بنتا ہی نہیں ہے، اس موقع پر شاہ خاور ایڈوکیٹ نے سلیم مانڈوی والا کیخلاف ریفرنس کی کاپی فراہم کرنے کی استدعا کی جس پر عدالت نے شاہ خاور ایڈووکیٹ کو ریفرنس کی کاپی پڑھنے کے لئے فراہم کر دی، اس موقع پر ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی نے کڈنی ہلز کی زمین سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی عدالت پیش کرتے ہوئے کہاکہ سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی ہے یہ زمین فلاحی مقاصد کے لئے مختص تھی، اعجاز ہارون اور سلیم مانڈوی والا نے مل کر یہی زمین عبدالغنی مجید کو بیچ ڈالی،سلیم مانڈوی والا اس کیس میں خود کو کارپوریٹ ڈیل اور بے نامی کے پیچھے چھپا رہے ہیں، سلیم مانڈوی والا نے 41 چیک وصول کئے، کل رقم 144 ملین روپے کی لی، سلیم مانڈوی والا نے 144میں سے 80ملین اعجاز ہارون کو دیئے باقی رقم خود رکھی،ہمارے پاس ایک ایک وصولی کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں،عدالت نے کہاکہ بہتر ہو گا یہ دلائل تمام ملزمان کو ریفرنس کی نقول فراہم کرنے کے بعد ہی سنے جائیں،عدالت نے بے نامی کے اعتراضات بھی 4 فروری کو ریفرنس کے ساتھ ہی سننے کا فیصلہ کرتے ہوئے سماعت8فروری تک کیلئے ملتوی کردی۔