• news
  • image

 پرویز خٹک کی ’’برجستگی‘‘

ہمارے ہاں سیاست اب پھکڑپن اور یاوہ گوئی تک محدود ہوچکی ہے۔اس تناظر میں سوچیں تو اتوار کا دن تحریک انصاف کے وزیروں اور ترجمانوں کی جانب سے اپنے مخالفین کی بھد اُڑانے میں گزرجانا چاہیے تھا۔ اپوزیشن کی تمام بڑی جماعتوں نے گزشتہ برس کے ستمبر میں خود کو PDMنامی اتحاد میں یکجا کیا تھا۔ نواز شریف نے اس کے افتتاحی اجلاس سے دھواں دھار خطاب کیا۔ جوش خطابت میں چند ایسے لوگوں سے پنجابی محاورے والے ’’سیدھے‘‘ ہوگئے جن کا اشاروں کنایوں میں ذکر کرتے ہوئے بھی سیاستدان گھبراتے ہیں۔بہرحال رونق لگ گئی۔’’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘‘ والا وقتی گماں ہوا۔ تقریروں سے مگر تقدیر بدلا نہیں کرتی۔ سیاست کی بساط پر چالیں چلتے ہوئے ہی آگے بڑھنا ہوتا ہے۔جلسوں کے علاوہ پی ڈی ایم مگر کوئی چال چلتی نظر نہیں آئی۔ اس کے بغیر ہی ’’بادشاہ‘‘ کو ’’شہ‘‘ دینے کی اگرچہ بڑھک لگادی۔اعلان ہوا کہ عمران خان صاحب 31جنوری 2021تک اپنے منصب سے ازخود مستعفی ہوجائیں۔وگرنہ…
محض بیانات کے ذریعے عمران خان صاحب کا استعفیٰ حاصل کرنا ممکن نہیں تھا۔ 31جنوری 2021لہٰذا آئی اور گزرگئی۔ تحریک انصاف کے وزراء اور ترجمانوں کے لئے اتوار کا سارا دن بھرپور گنجائش تھی کہ طنزیہ بیانات سے اپنے مخالفین کا دل جلائیں۔ دن شروع ہوتے ہی تاہم سوشل میڈیا پر وزیر دفاع پرویز خٹک کی ایک وڈیو وائرل ہوگئی۔ وہ اپنے شہر نوشہرہ میں ’’کارنر میٹنگ‘‘ دِکھتے کسی اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔پشتو زبان میں بہت اعتماد سے یہ دعویٰ کرتے سنائی دئے کہ وہ چاہیں تو عمران حکومت کا ایک ہی دن خاتمہ ہوجائے۔وہ مگر عمران خان صاحب کے ’’احسانات‘‘ یاد رکھے ہوئے ہیں۔
اتوار کا دن عوام کو 24گھنٹے باخبر رکھنے کے دعوے دار ٹی وی چینلوں کے لئے ’’ٹھنڈا اور مندا‘‘ دن تصور ہوتا ہے۔پرویز خٹک کی وڈیو کلپ نے مگر چار سے پانچ گھنٹوں تک پھیلے ’’نیوز سائیکل‘‘ کا بندوبست کردیا۔ ’’بریکنگ نیوز‘‘ کے بعد تبصرہ آرائی جاری رہی۔ پرویز خٹک کا بیان اہم،خصوصی اور چونکادینے والا اس لئے بھی سنائی دیا کیونکہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے نظر بظاہر آصف علی زرداری کی ایماء پر اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ مؤخر کردیا ہے۔اسمبلیوں میں موجود رہتے ہوئے ہی بلکہ تیاری شروع کردی ہے کہ سینٹ کی مارچ میں خالی ہونے والی 48نشستوں میں سے اکثریت کو کسی نہ کسی صورت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔پنجاب اور خیبرپختونخواہ اسمبلیوں میں تحریک انصاف اگر اپنی عددی قوت کے عین مطابق نشستیں نہ حاصل کر پائی تو اس کی بہت سبکی ہوگی۔ یہ پیغام ملے گا کہ عمران خان صاحب کی اپنی جماعت پر گرفت برقرار نہیں رہی۔ ڈیرے، حجرے اور دھڑے والے Electablesخودمختار ہوگئے ہیں۔ان کی خودمختاری عمران حکومت کو ایوان بالا میں بدستور کمزور رکھے گی۔اس حوالے سے قانون سازی کی راہ میں کھڑی رکاوٹوں سے کہیں زیادہ اہم یہ تاثر ہوگا کہ وزیر اعظم کے خلاف اگر تحریک عدم اعتماد کاپتہ کھیلا جائے تو ’’بادشاہ‘‘ کو مات ہوسکتی ہے۔
ایک ٹویٹ کے ذریعے پرویز خٹک صاحب نے اپنی وڈیو کلپ کی بدولت پھیلے تاثر کو مٹانے کی کوشش کی ہے۔ ان کے دوستوں نے بھی اس ضمن میں بچگانہ تاویلیں گھڑنے کی کوشش کی۔پرویز خٹک نے تاہم ’’پیغام‘‘ دے دیا ہے۔اقتدار کے بے رحم کھیل کی حرکیات(Dynamics)کو اگر ذہن میں رکھیں تو عمران خان صاحب کے لئے اسے نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ وہ خود کو یہ ثابت کرنے کو مجبور محسوس کریں گے کہ اپنے اقتدار کی بقاء کے لئے وہ کسی دوسرے کے محتاج نہیں۔جہانگیر خان ترین کو بنیادی طورپر یہ ہی پیغام دینے کے لئے ا نہوں نے بالآخر فارغ کیا تھا۔ پرویز خٹک کو بھی ’’آنے والی تھاں‘‘ تک پہنچانے کو مائل ہوں گے۔ اصل سوال میری دانست میں اب فقط ’’کب‘‘ کے گردگھومتا ہے۔’’شاید‘‘ والی بات نہیں رہی۔
پرویز خٹک سے میری سرسری شناسائی بھی نہیں۔ایک دو مرتبہ انہیں آفتاب شیرپائو کے پشاور والے گھر میں دیکھا تھا۔ آخری بار آج سے کئی برس پہلے دوپہر کے ایک کھانے میں شیرپائو صاحب کے ہمراہ جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ خٹک صاحب نے اپنے مری والے وسیع وعریض فارم ہائوس نما گھر میں اس کا اہتمام کررکھا تھا۔اس دعوت میں سو سے زیادہ لوگ مدعو تھے۔ مہمان نوازی معراج پر نظر آئی۔’’میزبان‘‘ مگر دعوت کے دوران کامل خاموش رہا۔ بارات کے دولہا کی طرح شیرپائو صاحب ہی وہاں ’’چھائے‘‘ رہے۔
پنجاب اور خاص طورپر سرائیکی علاقوں سے آئے کئی طاقت ور سیاستدانوں کی بدولت مگر بتدریج یہ علم ہوا کہ خٹک صاحب نوشہرہ کے ایک بہت ہی متمول گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ برطانوی راج کے دوران ان کے بزرگوں نے نہری نظام کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ شاید اسی تناظر میں پرویز خٹک صاحب لاہور کے ایچی سن کالج میں داخلے کے حقدار ہوئے۔چودھری نثار علی خان صاحب نے کئی برس قبل میرے ساتھ ہوئی ایک ملاقات میں انکشاف کیا تھا کہ ایچی سن کالج میں تعلیم کے دوران وہ پرویز خٹک اور عمران خان کے قریب ترین دوستوں کی تگڑم شمار ہوتے تھے۔خٹک صاحب کا خاندان راولپنڈی اور اسلام آباد میں بھی کئی بڑی عمارتوں،مکانوں اور سینما ہائوسز کا مالک تھا۔ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اس زمانے کے صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ نصر اللہ خٹک پرویز صاحب کے قریبی رشتے دار تھے۔ اپنے خاندان میں سے لیکن وہ واحد شخص ہیں جو سیاست میں نمایاں ہوئے۔جوڑ توڑ اوردھڑے کی سیاست انہوں نے پیپلز پارٹی ہی کے ایک اور وزیر اعلیٰ آفتاب شیر پائو سے سیکھی ہے۔ اس ہنر پر کامل گرفت کا اظہار 2013میں ہوا۔اس برس ہوئے انتخاب کے دوران خیبرپختونخواہ وہ واحد صوبہ تھا جہا ں تحریک انصاف نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی وافرنشستیں لے کر سیاسی مبصرین کو حیران کردیا۔اپنے تئیں اگرچہ یہ جماعت صوبائی حکومت بنانے کے قابل نہیں تھی۔ پرویز خٹک صاحب نے جماعت اسلامی کو ساتھ ملاکر حکومت بنادی اور اسے پانچ برس تک مستحکم انداز میں برقرار رکھا۔ عمومی تاثر یہ تھا کہ 2018کے انتخابات کے بعد وہ ایک بار پھر وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوکر ’’تاریخ‘‘ بنادیں گے۔
عمران خان صاحب مگر انہیں مرکز میں لے آئے۔ یہاں انہیں وزیر دفاع تعینات کیا گیا۔پاکستان کے مخصوص ریاستی ڈھانچے میں وزیر دفاع کی وہی حیثیت ہے جو مثال کے طورپر افغانستان میں وزیر ’’بحری وسائل‘‘ کی ہوسکتی ہے۔خٹک صاحب واضح انداز میں لہٰذا اس عہدے پر بٹھاکر ’’کھڈے لائن‘‘ لگادئیے گئے۔ کوئی بھی سیاست دان’’کھڈے لائن‘‘ رہنا پسند نہیں کرتا۔ خٹک صاحب کو یقینا سبکی محسوس ہوئی ہوگی۔وہ مگر برداشت سے کام لیتے رہے۔ جہانگیر خان ترین کی دربدری سے بھی سبق سیکھا۔جہانگیر خان ترین کی فراغت کے بعد کئی لوگوں کو یہ گماں تھا کہ خٹک صاحب کا صبر اور وفا آزمانے کے بعدعمران خان صاحب انہیں وزارتِ داخلہ جیسے ہائی پروفائل محکمے سے نوازیں گے۔خان صاحب نے مگر ’’ہما‘‘‘ راولپنڈی کی لال حویلی سے اُبھرے بقراطِ عصر کے سربٹھادی۔
خٹک صاحب کی اہمیت ایک بار پھر عمران خان صاحب کو یاد فقط اس لئے آئی ہے کہ مارچ میں سینٹ کی 48نشستوں کے انتخاب ہونا ہیں۔ تحریک انصاف کو خیبرپختونخواہ اسمبلی میں بے پناہ اکثریت حاصل ہے۔اس کی بدولت کم از کم اس صوبے میں اسے تقریباََ واک اوور ملنا فطری شمار کیا جارہا تھا۔صوبائی اسمبلی میں تاہم ’’موڈ‘‘ بدلا ہوا ہے۔ معاملات سنبھالنے کے لئے خٹک صاحب کے ہنر اور تجربے کی یادآئی۔معاملات سنبھالتے ہوئے اگرچہ خٹک صاحب کی فطری خواہش ہوگی کہ انہیں تحریک انصاف کے امیدواروں کا انتخاب کرنے میں ’’کھلاہاتھ‘‘دیا جائے تاکہ وہ مطلوبہ نتائج کا حصول یقینی بناسکیں۔کسی ’’ٹھوس خبر‘‘ کو نہ جانتے ہوئے بھی محض ایک سیاسی رپورٹر کی جبلت مجھے یہ سوچنے کو مجبور کررہی ہے کہ غالباََ خٹک صاحب کو ’’کھلاہاتھ‘‘ نہیں دیا جارہا۔ انہیں فقط ان امیدواروں کی کامیابی یقینی بنانے کا ہدف سوپنا جائے گا جن کا انتخاب صرف اور صرف عمران خان صاحب کریں گے۔دلوں میں بڑھتی اُلجھنوں کے سبب پرویز خٹک صاحب نے لہٰذا ’’بہت کچھ‘‘ کہہ دیا۔ میں یہ تسلیم کرنے سے ا نکار ی ہوں کہ ان سے ’’برجستگی‘‘ میں ’’بھول ‘‘ ہوگئی۔خٹک صاحب جیسے سیاستدان اپنے خوابوں میں بھی ’’برجستہ‘‘ نہیں ہوتے۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن