• news

اپوزیشن موجودہ طریقہ کی حامی ہے تو یہ ووٹوں کی خریدو فروخت روکنے کیخلاف نہیں: جسٹس گلزار

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت میں اٹارنی جنرل سے پارٹی وفاداری تبدیل کرنے پر قانونی پابندی بارے رائے طلب کر تے ہوئے سماعت آج تک ملتوی کردی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اوپن بیلٹ کا مقصد سیاستدانوں کو گندا کرنا نہیں ہے۔ عوام کو علم ہونا چاہیے کس نے پارٹی کے خلاف ووٹ دیا۔ ایک ٹی وی پروگرام میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آرٹیکل 226 پڑھ لیں۔ عدالت نے کہا کہ  پارٹی کو ووٹ نہ دینے پر نااہلی نہیں تو یہ تبدیلی صرف دکھاوا ہو گی۔ اٹارنی جنرل نے پوچھا کہ صدر مملکت جاننا چاہتے ہیں اوپن بیلٹ کے لیے آئینی ترمیم ضروری ہے یا نہیں؟ پہلے دن سے مجھے اس سوال کا جواب نہیں مل رہا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ پارٹی کے خلاف ووٹ دینے پر نااہلی نہیں ہو سکتی تو پھر مسئلہ کیا ہے؟ کوئی قانون منتحب رکن کو پارٹی امیدوار کو ووٹ دینے کا پابند نہیں کرتا جبکہ ووٹ فروخت کرنے کے شواہد پر ہی کوئی کارروائی ہو سکتی ہے لیکن اگر اوپن ووٹنگ میں بھی ووٹ فروخت کرنے کے شواہد نہ ہوں تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں۔ پارٹی کے خلاف ووٹ دینے والوں کا احتساب 5 سال بعد ہو؟ پارٹی کو ووٹ نہ دینے پر نااہلی نہیں تو یہ تبدیلی صرف دکھاوا ہو گی۔ وزیراعظم کو کیسے علم ہوا تھا کہ 20 ارکان صوبائی اسمبلیوں نے ووٹ بیچا، اٹارنی جنرل نے  کہا کہ وزیراعظم نے کمیٹی بنائی تھی جس کی سفارش پر کارروائی ہوئی لیکن کارروائی پر وزیراعظم کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ بن گیا۔ سزا دینے کے لیے آرٹیکل 63 اے میں ترمیم ہونی چاہیے۔ چیف جسٹس  نے ریمارکس دیے کہ عدالت میں مقدمہ آئینی تشریح کا ہے ووٹرز تو کہتے ہیں ارکان اسمبلی ہماری خدمت کے لیے ہیں اور عوام  ارکان اسمبلی کو اس لیے منتحب نہیں کرتے کہ وہ اپنی خدمت کرتے رہیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے  کہا کہ پارٹی کو چاہیے عوام کو بتائے کس رکن نے دھوکہ دیا۔ ریفرنس پر عدالتی رائے حتمی فیصلہ نہیں ہو گی اور حکومت کو ہر صورت قانون سازی کرنا ہو گی۔ حکومت نے قانون سازی کرنی ہے تو کرے مسئلہ کیا ہے؟ چیف جسٹس  نے ریمارکس دئیے کہ فرض کریں ایک چھوٹی جماعت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ ہم سینٹ انتخابات میں فلاں پارٹی کو ووٹ دیں گے۔ اس چھوٹی سیاسی جماعت کا رکن صوبائی اسمبلی پارٹی کے خلاف ووٹ دے تو پھر کیا ہوگا۔ اٹارنی جنرل ایمانداری اور وفاداری کی بات کر رہے ہیں۔ ارکان اسمبلی کیلئے ایماندار ہونا لازم ہے۔ اس معاملے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ ووٹر رکن اسمبلی کو یہ کہہ سکتا ہے آپ میری خدمت کیلئے آئے ہیں لیکن اپنے کام کر رہے ہیں۔ اگر اپوزیشن جماعتیں موجودہ طریقہ کار بدلنا نہیں چاہتیں تو یہ ووٹوں کی خرید و فروخت روکنے کیخلاف نہیں، یہ ہی سوال ہمارے ذہن میں بھی ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال اٹھایا کہ کیا ایک رکن صوبائی اسمبلی پر سینٹ الیکشن میں پارٹی مرضی کے خلاف ووٹ دینے کی قانونی پابندی ہے، رکن صوبائی اسمبلی پر سینٹ الیکشن میں اپنے سینیٹر کو ووٹ دینے کی پابندی کس قانون میں ہے۔ سینٹ انتخابات خفیہ بیلٹ کے ذریعے کروانے کے حق میں کیا دلیل ہے، رکن اسمبلی یہ کیوں چاہتا ہے کہ کسی کو معلوم نا ہو کہ اس نے ووٹ کسے دیا اور کیوں دیا، پیسے لیکر ووٹ لینے والوں کیلئے آرٹیکل 62 اور 63 موجود ہے۔ اگر کچھ  ارکان ووٹ دینا چاہ رہے ہیں تو پردہ داری کس بات کی ہے۔ اکثر ٹی وی پروگراموں میں بیٹھے لوگوں نے خود آرٹیکل 226 نہیں پڑھا ہوتا، اصل نقطہ ہے کہ آئین بناتے ہوئے بنانے والوں کے ذہن میں کیا تھا، آئین بنانے والوں کو شائد یہ اندازہ نہیں تھا کہ آنے والے وقتوں میں ہارس ٹریڈنگ بھی ہو گی۔

ای پیپر-دی نیشن