بھارتی رویہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے منافی، کشمیریوں سے کسی کو کشمیر نہیں چھیننے دینگے: شاہ محمود
اسلام آباد (نیوز رپورٹر+ سٹاف رپورٹر) وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ کسی کو کشمیر کشمیریوں سے چھیننے نہیں دیں گے۔ یہ مقصد اور جدوجہد منصفانہ و مقدس ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ ہندوتوا کی انتہا پسندانہ سوچ نہ صرف کشمیریوں بلکہ خود بھارت کے شہریوں بالخصوص مسلمانوں کے لئے بھی سنگین خطرہ ہے۔ بدھ کو انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل سٹڈیز کے زیر اہتمام کشمیر کی ناشنیدہ آوازوں سے یک جہتی کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت کے زیرقبضہ جموں وکشمیر میں صورت حال 5 اگست 2019 کے بھارت کے غیرانسانی اور یک طرفہ اقدامات کے بعد سے مزید بدتر ہوچکی ہے۔9 لاکھ سے زائد قابض بھارتی افواج بے گناہ کشمیریوں پر بدترین بربریت اور مظالم ڈھارہی ہیں۔ غیرقانونی طورپر بھارت کے زیرقبضہ جموں وکشمیر میں جعلی مقابلوں، تلاشیوں اور چھاپوں کی آڑ میں نوجوان کشمیریوں کی ماورائے عدالت شہادتیں معمول بن چکا ہے۔ سینئر کشمیری قیادت جھوٹے اور بدنیتی پر مبنی جعلی الزامات کے تحت بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں پابند سلاسل ہے۔ مقبوضہ خطے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنا ہے جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں، عالمی قانون بشمول چوتھے جنیوا کنونشن کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ قابض بھارتی فوج کے شدید ترین مظالم اور جبرواستبداد کے باوجود کشمیریوں نے بھارتی غلامی قبول کرنے سے انکار کیا اور کشمیریوں کا بھارتی قبضے سے آزادی حاصل کرنے کا عزم مزید مضبوط اور طاقت ور ہوا ہے۔ جموں وکشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ عالمی برادری کی جانب سے بھارتی جبرو استبداد کی مہم کو مسترد کرنا بلاشبہ درست سمت میں قدم ہے، تاہم اس ضمن میں ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے جس سے جموں وکشمیر کا تنازعہ جلد حل کرنے کی راہ ہموار کرنے میں مدد ملے گی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ حکومت نے لومز کو کباڑ ہونے سے بچایا۔ کپاس کی پیداوار بڑھانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ گزشتہ روز یہاں کاٹن سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ٹیکسٹائل کے فروغ کے لیے جی ایس پی پلس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ وزیراعظم نے کپاس کے بحران کو ختم کرنے کے لیے بھرپور حکمت عملی کی ہدایات کی ہیں۔ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں پاک چین زرعی تعاون بڑھے گا۔ پاکستان امریکا کے ساتھ بھی زرعی تعاون چاہتا ہے۔ صوبے 18 ویں ترمیم کے بعد زراعت پر وہ توجہ نہ دے سکے جس کی ضرورت تھی۔ بدقسمتی سے کپاس کے حوالے سے بحرانی کیفیت کا شکار ہیں۔ کسان، جنر، ویونگ اور ایکسپورٹرز کو ایک لڑی میں پرونا ہوگا۔ ہماری مونجی اور مکئی کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے ہمیں توقع ہے کہ گندم کی پیداوار بھی بہتر ہو گی۔