سینیٹ کے104 ارکان میں سے 52 سینیٹرز 11مارچ کو ریٹائر ہوجائیں گے
اسلام آباد (چوہدری شاہد اجمل) آئندہ ماہ11مارچ کو سینٹ آف پاکستان کے 104 ارکان کے ایوان میں سے 50 فیصد یعنی 52 سینیٹرز کو اپنی 6 سالہ مدت پوری ہونے کے بعد ریٹائر ہوجائیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف سینٹ میں 28 سینیٹرز کے ساتھ اکیلی سب سے بڑی جماعت بن جائے گی جبکہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) سینٹ میں سب سے بڑی نمائندگی کھونے والی جماعت ہوگی۔ اس مرتبہ سابق فاٹا کے صوبہ خیبرپختونخوا سے انضمام کے بعد وہاں کی 4نشستوں کے لیے انتخاب نہیں ہوگا۔ تفصیلات کے مطابق موجودہ سینٹ جو ہائوس آف فیڈریشن کے طور پر بھی جانا جاتا ہے اس کے 104 اراکین ہے، جس میں چاروں صوبائی اکائیوں یعنی صوبائی اسمبلیوں سے 23، 23، سابق فاٹا سے 8 اور اسلام آباد سے 4 اراکین ہیں۔ صوبے کے لیے مختص 23نشستوں میں سے 14جنرل نشستیں، 4خواتین کے لیے مخصوص نشستیں، 4 ٹیکنوکریٹس اور ایک اقلیتی رکن کے لیے ہوتی ہے۔ سینٹ انتخابات میں 48 سینیٹرز کے انتخاب کے لیے پولنگ ہوگی جس میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے 12، 12پنجاب اور سندھ سے 11، 11 اور 2 اسلام آباد سے ہوں گے۔ جنرل نشستوں پر 7اراکین، چاروں صوبوں میں 2خواتین اور 2ٹیکنوکریٹس کے انتخاب کے لیے پولنگ ہوگی۔ اس کے علاوہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ایک، ایک اقلیتی نشست پر بھی انتخاب ہوگا۔ جب ایم پی ایز متعلقہ صوبوں سے سینیٹرز منتخب کریں گے۔ قومی اسمبلی کے اراکین جنرل نشستوں پر اور اسلام آباد سے خاتون کی نشست پر سینیٹر کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈالیں گے۔ صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں کے مطابق حکمران پی ٹی آئی کو 21 نشستیں ملنے کا امکان ہے، جس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی 6، 6نشستیں اور مسلم لیگ (ن) 5نشستیں جیت سکتی ہے جس سے پی ٹی آئی نئے سینٹ میں 28سینیٹرز کے ساتھ اکیلی سب سے بڑی جماعت بن جائے گی۔ جس کے بعد دوسرے نمبر پر 19نشستوں کے ساتھ پیپلز پارٹی، 17کے ساتھ مسلم لیگ (ن) اور بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کی 13 نشستیں ہوںگی۔ جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف سینٹ میں 28 سینیٹرز کے ساتھ اکیلی سب سے بڑی جماعت بن جائے گی۔ دوسری جانب صوبہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کو 12میں سے سینٹ کی 10نشستیں ملنے کا امکان ہے۔ باقی دونوں نشستیں اپوزیشن جماعتوں کو جاسکتی ہیں اور جمعیت علمائے اسلام (ف) اور عوامی نیشنل پارٹی دونوں کا ایک، ایک نشست جیتنے کا امکان ہے۔ پنجاب سے تحریک انصاف 4جنرل نشستوں سمیت 6نشستیں جیتنے کی امید لگائے ہوئے ہے۔ تحریک انصاف کو سندھ سے 2 اور بلوچستان سے ایک نشست کے علاوہ اسلام آباد سے دونوں نشستیں جیتنے کی توقع ہے۔ مسلم لیگ (ن)کو توقع ہے کہ وہ صرف پنجاب سے اپنے سینیٹرز منتخب کر سکے گی جبکہ پیپلز پارٹی بھی اس مرتبہ صرف سندھ سے نمائندگی حاصل کرے گی، جہاں وہ 2008 سے اقتدار میں ہے۔ اس کے علاوہ ایم کیو ایم سندھ اسمبلی میں اپنے 21ایم پی ایز کی بدولت ایک جنرل نشست آسانی سے حاصل کرسکتی ہے۔ تاہم پارٹی کے لیے مزید نستیں اس کی پی ٹی آئی اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے ساتھ سمجھوتے پر انحصار کرتی ہیں کیونکہ دونوں جماعتیں مرکز میں حکمران جماعت کے اتحاد کا حصہ ہیں۔ بلوچستان میں بی اے پی سینٹ کی6 نشستیں جیت سکتی ہے باقی نشستیں جے یو آئی (ف) اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) میں تقسیم ہوتی نظر آتی ہیں۔ اے این پی کے پاس بھی موقع ہے کہ وہ دیگر قوم پرست جماعتوں کی حمایت سے صوبے سے ایک نشست جیت سکتی ہے۔