• news

سٹیل ملز کی حالت زار کی ذمہ دارانتظامیہ کوئی سیکرٹری کام نہیں کر رہا : چیف جسٹس

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سٹیل مل سے متعلق اقدامات نہ کرنے پر سپریم کورٹ نے اظہار برہمی کرتے ہوئے وفاقی وزیر نجکاری اور وزیر منصوبہ بندی کو 9 فروری کو طلب کرلیا۔ چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا ہے کہ سٹیل مل سے پہلے افسروں کو نکالیں، سٹیل مل کے بقیہ 3700 ملازمین کو فارغ کرنے کا حکم دینگے، آج سے کسی ملازم کو ادائیگی نہیں ہو گی جب مل نفع ہی نہیں دیتی تو ادائیگیاں کس بات کی۔ سٹیل ملز کو ورکر سے لیکر اعلی مینجمنٹ تک سب نے لوٹا۔ سپریم کورٹ میں سٹیل مل ملازمین کی پروموشن سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمدکی سربرا ہی میں تین رکنی بینچ نے کی دوران سماعت چیف جسٹس نے سٹیل مل کی حالت زار کا ذمہ دار انتظامیہ کو قرار دیدیا۔ چیف جسٹس نے کہا مل بند پڑی ہے تو انتظامیہ کیوں رکھی ہوئی ہے؟ بند سٹیل مل کو کسی ایم ڈی یا چیف ایگزیکٹو کی ضرورت نہیں سٹیل مل انتظامیہ اور افسران قومی خزانے پر بوجھ ہیں ملازمین سے پہلے تمام افسران کو سٹیل مل سے نکالیں۔ پاکستان کے علاوہ پوری دنیا کی سٹیل ملز منافع میں ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا مل بند ہے لیکن ملازمین ترقیاں مانگ رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا ورکر اپنے پیسے لینے کیلئے ٹریک پر لیٹ جاتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاچار ہزار ورکرز 212 ارب کے قرضے ایسے کون سٹیل مل خریدے گا مل ایک ڈھیلہ نہیں بنا رہی اور ملازمین بونس مانگ رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سٹیل مل کے چیئرمین کہاں ہیں سٹیل مل کے وکیل نے کہا چیئرمین بیرون ملک ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا سٹیل مل چیئرمین سرکاری خرچے پر ہیں۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری صعنت و پیداوار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا سیکرٹری صاحب بابو والا کام نہیں افسر والا کام کریں۔ چیف جسٹس نے ملک کی بیوروکریسی پر شدید اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا ملک میں کوئی وفاقی سیکرٹری کام نہیں کر رہا تمام سیکرٹریز صرف لیٹر بازی ہی کر رہے جو کلرکوں کا کام ہے، سمجھ نہیں آتا حکومت نے سیکرٹریز کو رکھا ہی کیوں ہوا ہے؟ سیکرٹریز کے کام نہ کرنے کی وجہ سے ہی ملک کا ستیاناس ہوا،سیکرٹریز کو ڈر ہے کہیں نیب انہیں نہ پکڑ لے، پہلے بھی تو سیکرٹریز کام کرتے تھے اب پتا نہیں کیا ہوگیاکیوں نہ وفاقی سیکرٹری پیداوار کی تنخواہ ہی بند کر دیں۔ چیف جسٹس نے کہا ملک کے ہر ادارے کا حال سٹیل مل جیسا ہے۔ ریلوے، پی آئی اے سمیت ہر ادارے میں حالات ایسے ہی ہیں سب افسران اپنی ذاتی سروس کر رہے ملک کی کسی کو فکر نہیں بند اداروں کے ملازمین کو تنخواہیں دیکر ہی ملک دیوالیہ ہوا۔ مزید سماعت 9 فروری تک ملتوی کر دی گئی۔

ای پیپر-دی نیشن