• news
  • image

بھارت ہٹ دھرمی چھوڑ کر مذاکرات کی میز پر آئے

مسئلہ کشمیر :پاکستان کا اقوام متحدہ سے قانونی اختیار استعمال کرنے کا مطالبہ‘ وزیراعظم کی مودی کو مل کر تنازعہ حل کرنے کی پیشکش
وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کی خاطر اپنے قانونی اور اخلاقی اختیار کا استعمال کرے۔وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے صدر اور سیکریٹری جنرل کو خط لکھ کر بھارتی قابض کشمیر میں جاری 'سنگین صورتحال اور سیزفائر کی خلاف ورزیوں سمیت بھارت کے ’’پاکستان کیخلاف دشمنی پر مبنی اقدامات‘‘ سے آگاہ کیا۔دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی توجہ بھارتی غیر قانونی قبضے والے کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں، مقبوضہ علاقے کو کالونی بنانے کی بھارت کی غیر قانونی مہم اور سیز فائر کی مسلسل خلاف ورزیوں سمیت، پاکستان کیخلاف بھارت کے امن و سلامتی کیلئے خطرناک متشدد اور دشمنانہ اقدامات کی طرف مبذول کروائی ہے۔شاہ محمود قریشی نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت کو جاری فوجی محاصرے ، مقبوضہ کشمیر میں غیرقانونی اور یکطرفہ کارروائیوں ،مواصلات، نقل و حرکت اور پرامن اسمبلی پر پابندی ختم کرنے، قید کشمیری سیاسی رہنمائوں کو فوری طور پر رہا کرنے،کشمیری عوام کو اظہار رائے کی اجازت دینے اور غیر قانونی طور پر نظربند کشمیریوں کو آزاد کرنے پر آمادہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی غیر قانونی قبضے والے کشمیر کے آبادیاتی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کیلئے ڈیزائن کیے گئے نئے ڈومیسائل قوانین اور پراپرٹی قوانین کو ختم کیا جائے۔ جعلی انکائونٹرز اور غیر قانونی ماورائے عدالت قتل پر معافی سمیت قابض افواج کو انسانی حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ جاری رکھنے کے قوانین کو ختم کیا جائے۔ بھارت اقوام متحدہ کے مبصرین، بین الاقوامی انسانی حقوق اور انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت بین الاقوامی میڈیا کو مقبوضہ علاقے تک رسائی کی اجازت دے۔ 
اپنی آزادی کیلئے کشمیری جو کچھ کر سکتے ہیں‘ وہ انہوں نے کرکے دکھا دیا۔ جان سے قیمتی اور کیا کچھ ہو سکتا ہے۔ کشمیری اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ انکی جدوجہد 70 سال سے زائد کی ہو چکی ہے۔ اس دوران بھارتی سفاک سپاہ کے تشدد سے ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔ یہ شہادتیں ریکارڈ پر ہیں جو تاریک راہوں میں مارے گئے انکی تعداد سوا ہے۔ لاپتہ ہونیوالوں کو بھی شہیدوں میں شامل کرنا ہوگا۔ کئی اجتماعی قبریں دریافت ہو چکی ہیں‘ کئی دریافت ہونے کی منتظر اور متقاضی ہیں۔ زیادتی اور اجتماعی زیادتی کے واقعات پے در پے دنیا کے سامنے آرہے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جن کا شکار ہونیوالی خواتین مصلحتاً خاموش رہیں۔ بھارتی مظالم کیخلاف کشمیریوں کی جدوجہد کو مہمیز برہان مظفر وانی کی جولائی 2016ء میں بھارتی فورسز کے بہیمانہ تشدد سے ملی۔ اسکے بعد تحریک کا جو ٹمپو بن گیا تھا کشمیریوں نے اس میں کمی نہیں آنے دی۔ اس سے زچ ہو کر مقبوضہ وادی میں بھارت نے اپنی ہی کٹھ پتلی نام نہاد جمہوری حکومت کا خاتمہ کیا۔ گورنر راج کے ذریعے کشمیری حریت پسندوں کو بندوق کے زور پر دبانے کی کوشش کی گئی مگر کشمیری مظالم کے سامنے ڈٹ کر کھڑے گئے۔ مودی سرکار کو وادی میں صدر راج نافذ کرنا پڑا مگر یہ سب حربے لاحاصل رہے۔ 5؍ اگست 2019ء کو شب خون مارتے ہوئے کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کیا گیا تو کشمیری مزید زیادہ شدت جذبات کے ساتھ سڑکوں پر نکل آئے۔ مودی سرکار کیلئے ان کو کنٹرول کرنا مشکل ہو گیا تو بدترین پابندیوں کا حامل کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ آج ایسی غیرانسانی پابندیوں کو ڈیڑھ سال ہونے کو ہے۔ اس دوران کشمیریوں کیخلاف ہر ستم روا رکھا گیا۔ ظلم اور جبر کا ہر ضابطہ اختیار کیا گیا‘ لوگوں کو میتیں قبرستان تک لے جانے کی اجازت نہیں۔ بیماروں کی ہسپتالوں تک رسائی نہیں۔ معصوم بچے دودھ اور خوراک سے محروم ہیں۔ انسانی المیہ بدسے بدتر صورت اختیار کررہا ہے۔
بھارت کی طرف سے کشمیر کے خصوصی درجے کے خاتمے کی شدید مخالفت بھارت نواز سیاست دان شیخ عبداللہ اور مفتی خاندان کی طرف سے بھی کی جارہی ہے۔ یہ خاندان بھارتی حکمرانوں کے کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ آج وہ اپنے رویوں پر نادم اور اپنے بڑوں کی طرف سے پاکستان کا ساتھ نہ دینے پر انہیں مطعون کرتے ہوئے ’’بلنڈر‘‘ کا مرتکب قرار دے رہے ہیں۔ 
کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت دینے کے بجائے مودی سرکار نے ان کا عرصہ حیات مزید تنگ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دنیا کا مہلک ترین اسلحہ نہتے کشمیریوں پر آزمایا جاتا ہے۔ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال جنگ کے دوران بھی ممنوع ہے مگر وادی میں کیمیائی ہتھیار بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ 5 اگست کے شب خون کے بعد کشمیریوں پر بربریت میں اضافے کیلئے مزید دو لاکھ فوج تعینات کرکے تعداد نولاکھ کر دی گئی ۔ مظالم کو خفیہ رکھنے کیلئے وہاں آزاد میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا داخلہ بند کر دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مشن کو بھی داخلے کی اجازت نہیں۔ نوجوانوں کو دھڑادھڑ گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سیاسی قیادتوں کو مسلسل قید میں رکھا جا رہا ہے جس مقصد کیلئے بھارتی آئین کے آرٹیکل 35اے اور 370 میں تبدیلی کی گئی اس پر عمل شروع ہوگیا ہے۔ آئین میں ترمیم ’’مودی ازم‘‘ کی مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے توازن مسلمان اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی سازش ہے۔ اسکے بعد سے لاکھوں غیرکشمیریوں کو وادی میں لا کر بسادیا گیا ہے۔ لاکھوں کو ڈومیسائل جاری کئے گئے ہیں۔ ایسی سہولیات سے مستفید ہونیوالوں کی اکثریت کا تعلق آر ایس ایس کے شدت پسندوں سے ہے۔ 
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام عالم کے ضمیر کو جھنجوڑنے کیلئے اقوام متحدہ کے صدر اور سیکرٹری کے نام خط تحریر کیا ہے۔ مزیدبراں یوم یکجہتی کے موقع پر وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر صرف استصواب سے ہی حل کیا جا سکتا ہے جس کی ضمانت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں دی گئی ہے، انہوں نے مودی سرکار کو ہٹ دھرمی چھوڑ کر مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔ ایک بار جب یہ رائے شماری ہوجاتی ہے اور کشمیری پاکستان میں شامل ہوجاتے ہیں تو ان کا رشتہ پاکستان اور کشمیریوں کے مابین ہوگا، آئیے ابھی ہم مسئلہ پر توجہ مرکوز کریں، یہی وہ جدوجہد ہے جس پر ہمیں اپنی توجہ مرکوز رکھنا ہوگی اور بھارت کے روئیے کو بے نقاب کرنا ہوگا۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن