مسئلہ کشمیر اتنا ابھر چکا بھارت کا اس سے فرار ممکن نہیں : مفتاح اسماعیل
کراچی (انٹرویو: محمد قمر خان) ڈاکٹر مفتاح اسماعیل کا شمار معروف بزنس مینوں میں ہوتا ہے۔ آپ مسلم لیگ (ن) سے وابستہ اور سابق دور حکومت میں ملک کے وزیر خزانہ بھی رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ وفاقی مشیر برائے فنانس' ریونیو' اکنامک افیئرز سمیت بورڈ آف انوسٹمنٹ کے سربراہ اور آئی ایم ایف کے لئے ماہر معاشیات کے طور بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ملکی معیشت' عالمی امور اور حالات حاضرہ پر ان کی گہری نظر ہے۔ کشمیر ڈے کے حوالے سے ان کے خیالات جاننے کے لئے ان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے صوبائی دفتر آنے کی دعوت دے ڈالی۔ ریذیڈنٹ ایڈیٹر نوائے وقت کراچی محمد امین یوسف کے ہمراہ ہونے والی اس ملاقات میں کشمیر سمیت بلکہ متعدد موضوعات پر ان سے سیر حاصل گفتگو ہوئی تاہم کشمیر ڈے کی مناسبت سے اس وقت ہم صرف کشمیر پر ہی ان کے خیالات قارئین تک پہنچا رہے ہیں۔ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل کا ماننا ہے کہ اگرچہ مسئلہ کشمیر اس قدر ابھر کر سامنے آچکا ہے کہ اب بھارت کے لئے اس سے فرار ممکن ہی نہیں۔ کشمیر کے بعد خالصتان کی تحریک اب مودی حکومت کے گلے کی ہڈی بن چکی ہے اور جلد ہی بھارت میں دیگرعلیحدگی کی تحریکیں بھی سر ابھارنے لگیں گی۔ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کا جذبہ حریت تو دنیا کے سامنے آشکار ہے تاہم بھارت میں علیحدگی کی تحریکوں کے ابھرنے کی اہم وجہ مودی کی فاشسٹ حکومت کے انسانی حقوق کے خلاف اقدامات ہیں جس کا نشانہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیری ہی نہیں بلکہ تمام ہی اقلیتیں اور خود ہندو دھرم کی نچلی ذات کے عوام بھی بن رہے ہیں۔ اگر مودی حکومت چند سال مزید رہ گئی تو بھارت کو ٹکڑے ہوتے خود مودی حکومت دیکھ لے گی۔ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف سے متعلق ایک سوال پر مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ پاکستان روز اول سے ہی کشمیر کی بات کرتا رہا ہے چاہے کوئی بھی حکومت رہی ہو تاہم اب ایٹمی پاکستان کو نہ صرف کشمیر بلکہ ہندوستان کے تمام مسلمانوں کے لئے آواز اٹھانی چاہئے کیونکہ بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ بھی مودی حکومت کا ظالمانہ رویہ اور ان کی نسل کشی کے اقدامات اب ڈھکے چھپے نہیں رہے۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ پاکستان اسلامی ممالک میں ایک ممتاز حیثیت رکھتا ہے اور اسے دنیا بھر کے مسلمانوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی فارن پالیسی بنانی ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیںاپنی کشمیر سٹریٹجی پر بھی نظر ثانی کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ بد قسمتی سے کشمیر معاملے کو بوجوہ اس قدر حساس بنا دیا گیا ہے کہ اگر کوئی سیاستدان اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے از خود پیش رفت کرنا چاہے یا کرلے تو اسے غداری سمجھا جاتا ہے۔ انہوں کہا کہ قائد نواز شریف اس کی ایک مثال ہے۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ موجودہ دور حکومت میں تو کشمیر کاز کو انتہائی نقصان پہنچا ہے۔ تبدیلی سرکار نے یہاں بھی کارستانی دکھاتے ہوئے کشمیر ہائی وے کو سری نگر ہائی وے سے تبدیل کردیا۔ ہماری فارن پالیسی ناکام ہو چکی ہے۔ دنیا میں ہمیں کوئی پسند نہیں کر رہا۔ اسلامی ممالک ہم سے ناراض ہیں' سعودی عرب' قطر' عمان' دبئی جیسے دوست ممالک اب ہماری نا قص پالیسیوں کے سبب ہم سے دور جا چکے ہیں اسی سبب ہم او آئی سی کا اجلاس تک نہیں طلب کر پا رہے۔ ملائیشیا میں ہمارا طیارہ روک لیا جانا اس بات کا ثبوت اور انتہائی ہتک آمیز رویہ ہے مگر ہمارا کپتان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ ''گھبرانا نہیں ہے''۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ اب ہمیں فیصلہ کر لینا چاہیئے کہ بھارت سے ہم نے دوستی کرنی ہے یا دشمنی' بھارت سے آئیڈیل دوستی توکسی طرح ممکن ہی نہیں البتہ تنازعات خصوصاً مسئلہ کشمیر کے تناظر میں ہمیں اپنے اس زیرک دشمن سے بھی ورکنگ ریلیشن شپ بنانی ہوگی۔