صدارتی آرڈیننس: واویلا بیکار ، عدالتی فیصلہ قبول، حکومت : آئین پر حملہ ، سپریم کورٹ جائینگے، اپوزیشن
اسلام آباد، ملتان (نامہ نگار+ سپیشل رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ) وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ اپوزیشن کا سینٹ انتخابات میں شفافیت کو یقینی بنانے کے اقدام پر واویلا بے کار اور سمجھ سے بالاتر ہے۔ اپنے ٹوئٹر بیان میں وفاقی وزیراطلاعات و نشریات نے کہا کہ انتخابات میں شفافیت جمہوریت کی مضبوطی ہے۔ اوپن بیلٹ کی مخالفت کر کے اپوزیشن نے واضح کر دیا کہ یہ سیاست میں پیسے کی سیاست ختم نہیں کرنا چاہتے۔ دریں اثناء وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں کہا ہے کہ جو الیکشن میں پیسہ استعمال کرنا چاہتے ہیں ان کو اوپن بیلٹ پر اعتراض ہے۔ سپریم کورٹ پر کوئی دباؤ نہیں ڈال سکتا۔ علاوہ ازیں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے ملتان میں میڈیا سے خطاب میں کہا ہے کہ پورا پاکستان جانتا ہے سینٹ انتخابات میں خریدوفروخت ہوتی ہے۔ پہلے سینٹ الیکشن میں بھی ارکان کو خریدنے کی منڈی لگی۔ پی پی اور (ن) لیگ سے پوچھتا ہوں آپ نے میثاق جمہوریت میں اوپن بیلٹ پر دستخط کئے۔ آج کیوں فرار چاہتے ہیں۔ پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ لوگوں کے ضمیر خریدنا چاہتی ہے۔ ہم آئینی ترمیم کیلئے بھی تیار ہیں۔ بدقسمتی سے اپوزیشن نہیں چاہتی۔ پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ منڈی لگانا چاہتی ہے۔ مہنگائی قانون سازی سے کم نہیں ہوتی۔ سینٹ میں ہر مسئلے کو اٹھانا چاہئے۔ کچھ طاقتیں پاکستان میں انتشار پھیلانا چاہتی ہیں۔ سینٹ کا ایوان آئین کے تحفظ کیلئے اپنا کردار ادا کرے گا۔ احتجاج اپوزیشن کا حق ہے۔ اپوزیشن سے کہتے ہیں ملک میں افراتفری نہ پھیلائے۔ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لے۔ اپوزیشن جمہوری انداز میں احتجاج کرے۔ شاہ محمود قریشی نے اعتراف کیا ہے کہ سینٹ الیکشن سے متعلق آئینی ترمیم کیلئے تحریک انصاف کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں۔ سینٹ الیکشن کے متعلق کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور سپریم کورٹ جو فیصلہ کرے گی ہمیں منظور ہو گا۔ سینٹ انتخابات میں پیسہ چلنا عوام کے اعتماد کا سودا کرنے کے مترادف ہے۔ پی ڈی ایم ایک طرف حکومت کو جعلی حکومت کہتی ہے اور دوسری طرف سینٹ انتخابات میں حصہ لیکر اسی جعلی اسمبلی میں جانا چاہتی ہے۔ شاہ محمود کا کہنا تھا کہ مریم نواز کو عمران فوبیا ہو گیا۔ پی ڈی ایم جتنا مرضی لانگ مارچ یا احتجاج کر لے تاہم لٹیروں سے مفاہمت نہیں ہو سکتی۔ نواز شریف نے مودی کو شادی پر بلا کر گلے لگایا اور کشمیریوں سے بغاوت کی۔ تاہم کسی بھی صورت میں مسئلہ کشمیر کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ لاپتہ کوہ پیماؤں کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ کے ٹو سر کرنے کے بعد واپسی پر کوہ پیماؤں سے رابطہ منقطع ہوا۔ سرد موسم میں بھی کوہ پیماؤں کی تلاش میں ہماری فوج میدان میں ہے۔ خدا کرے کہ کوہ پیما خیریت سے ہوں۔ اپوزیشن اچھی تجویز ضرور دے، کوئی رخنہ نہ ڈالے۔ لوگ اپوزیشن کا ساتھ دینے کو تیار نہیں۔
اسلام آباد، نارووال، کراچی (نامہ نگار، نیوز رپورٹر، نوائے وقت رپورٹ) پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ حکومت نے سینٹ الیکشن کو مذاق بنا دیا۔ دنیا جانتی ہے کہ صدارتی آرڈیننس بدنیتی پر مبنی ہے۔ ہم آئین کے تحت کام کریں گے۔ کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ الیکشن کے معاملے پر ایک طرف الیکشن کمیشن نے جواب داخل کیا دوسری جانب معاملہ عدالت میں ہے اور یک دم صدارتی آرڈیننس جاری کردیا گیا۔ دنیا جانتی ہے کہ یہ آرڈیننس بد نیتی پر مبنی ہے۔ عدالت نے بھی کہا کہ یہاں آئین خاموش ہے اور خاموشی کا علاج پارلیمنٹ سے رجوع کرنا ہے۔ پی ٹی آئی جن لوگوں کو سینٹ کے ٹکٹ دی رہی ہے ان کے اپنے لوگ بھی انہیں ووٹ دینا نہیں چاہتے۔ یہی وجہ ہے حکومت اوپن بیلٹ کے ذریعے انتخابات کروانا چاہتی ہے۔ فضل الرحمان نے کہا کہ وزیراعظم سے 31 جنوری تک مستعفی ہونے کا کہا تھا اور استعفی نہ آنے پر مارچ میں لانگ مارچ کی ڈیڈ لائن دی۔ لانگ مارچ کا یہ فیصلہ متفقہ طور پر کیا گیا۔ روزانہ کی بنیاد پر حکمت عملی تبدیل کرنی پڑتی ہے۔ اب لانگ مارچ کے پلان کو قیادت طے کرے گی۔ یہ ایک تحریک ہے اور یہ چلتی رہے گی۔ عمران خان مسخرہ ہے، نااہل ہے ، پوری حکومت نااہل ہے۔ عمران خان نے کوٹلی میں خطاب کے دوران ریاستی موقف کی نفی کی۔ کشمیر کے لیے ہم انسانی حقوق کا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ گلگت بلتستان کو صوبہ قرار دینا اقوام متحدہ کی قراردادوں کی نفی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اسلام آباد میں بھرپور مظاہرہ ہو گا۔ دھرنے پر پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں متفق ہیں۔ لانگ مارچ کا یہ مطلب نہیں کہ ہم آئے اور اٹھ کر چلے گئے۔ ہم خاموش نہیں، تحریک کے مراحل ہوتے ہیں۔ پسپائی تب ہوتی ہے جب اپنا مؤقف چھوڑ دیں۔ ہمارے پاس استعفے جمع ہیں۔ دھرنے میں سب پارٹیاں شامل ہوں گی۔ ہم فوری طور پر وحدت کا مظاہرہ نہیں کر سکے جو کرنا چاہیے تھا۔ اپوزیشن سے کچھ کوتاہیاں ہوئی ہیں۔ مجھے کسی ڈیل کا علم نہیں۔ ڈاکٹرز متفق تھے کہ نوازشریف کو علاج کیلئے باہر جانا ناگزیر تھا۔ ہمارے ساتھ وعدہ ہوا تھا کہ مارچ میں حکومت جائے گی الیکشن ہوں گے، وہ پورا نہیں ہوا۔ کسی کا باپ بھی ہم سے حکومت کو ختم نہیں کرا سکتا۔ اگر حکومت ختم نہ ہوئی تو پھر جبر ہو گا۔ کسی مناسب فورم پر جانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ عوام کا مسئلہ ہے۔ یہ لڑائی عوام کی عدالت میں لڑی جاتی ہے۔ اللہ نہ کرے کہ ہمسایہ ملک سے کوئی سازش آئے۔ ہم اس موقع پر ایک قوم بن کر مقابلہ کریں گے۔ بھارت یا دیگر دشمن قوتوں کیخلاف ہم سب ایک قوم ہیں۔ ہم ہمیشہ اداروں کیلئے ڈھال بنے ہیں۔ سیاستدانوں نے ہمیشہ کوشش کی کہ وہ اپنے اداروں کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔ عمران خان تو حکمران ہی نہیں اس لیے اس سے مذاکرات نہیں کرتا۔ وہ جبراً بیٹھا ہے قبضہ کر کے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ سنجیدگی کے ساتھ تیار ہو تو ہم ان کو آئینی راستہ دینے کیلئے تیار ہیں۔ بات خفیہ نہیں ہو گی کھل کر ہو گی۔ پی ڈی ایم کی کسی سے خفیہ بات نہیں ہو رہی۔ ایسا کرنا ہماری نہیں آرمی کی ضرورت ہے۔ ہم سے رابطے ہوئے۔ اگر میری جائیدادیں ہیں تو سامنے لائیں۔ میں آج تک اسلام آباد میں ایک جھونپڑی نہیں بنا سکا تو اس پر جائیدادوں کا الزام لگاتے ہو۔ نیب سمیت کسی کا باپ بھی میرا احتساب نہیں کر سکتا۔ مولانا فضل الرحمن نے کراچی پہنچنے کے بlد سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی اور سردار شیرباز مزاری کی وفات پر ان کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت کیا۔ مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے نارووال میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران نیازی حکومت نے صدارتی آرڈیننس جاری کر کے پاکستان کے آئین اور سپریم کورٹ پر حملہ کیا۔ حکومت کی طرف یہ بل پیش کئے جانے کا صاف مطلب ہے کہ سینٹ کے انتخاب کے حوالے طریقہ کار آئین میں ترمیم کے بغیر تبدیل نہیں ہو سکتا۔ اگر اسے درست تسلیم کر بھی لیا جائے تو کل ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے 18ویں ترمیم کو رول بیک کرنے کا بھی اعلان ہو سکتا ہے۔ وفاقی پارلیمانی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کا آرڈیننس بھی آ سکتا ہے۔ آئین میں دوبارہ 58 ٹو بی کو بحال کرنے کا آرڈیننس جاری ہو سکتا ہے۔ آرڈیننس سپریم کورٹ کو ڈکٹیشن دینے کی کوشش ہے۔ میری دانست میں سپریم کورٹ کو حکومت کے ریفرنس کو واپس بھیج دینا چاہئے۔ حکومت نے سپریم کورٹ کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ مزاحیہ آرڈیننس ہے۔ دریں اثناء پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے گزشتہ روز سینٹ انتخابات پر صدارتی آرڈیننس پر کراچی میںپریس کانفرنس کی۔ شیری رحمن نے کہا کہ حکومت کو آئینی ترمیم پاس کرنے کیلئے 2 تہائی اکثریت حاصل نہیں۔ حکومت الیکشن سے ایک ماہ پہلے ترمیم کا بل کیوں لے آئی۔ حکمران ترمیم کے حوالے سے سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی صدارتی آرڈیننسوں کو مسترد کرتی ہے۔ معاملہ عدالت میں ہے‘ راتوں رات آرڈیننس جاری کر دیا گیا۔ یہ عدالت اور پارلیمان پر حملہ ہے۔ سینیٹر رضا ربانی نے سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے منظور کیے گئے آرڈیننس پر کہا ہے کہ مجھے ایسی کوئی مثال نہیں ملی جس میں آرڈیننس کا اطلاق سپریم کورٹ کے فیصلے کے ساتھ مشروط ہو۔ جب آپ نے آرٹیکل 6 کے تحت سپریم کورٹ سے رائے طلب کی تو آپ کو عدالت کی رائے کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔ آرڈیننس لا کر سپریم کورٹ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ آرڈیننس بدنیتی پر مبنی ہے اور اس کے اندر تضاد ہے کیونکہ پہلے لکھا گیا کہ آرڈیننس کا اطلاق فوری ہوگا اور بعد ازاں کہا گیا کہ آرڈیننس کا اطلاق سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط ہوگا‘۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پارلیمان کو پہلے ہی غیر فعال بنا چکی ہے اور اب مزید مذاق کیا جا رہا ہے۔ سینٹ انتخابات کو متنازعہ بنایا جارہا ہے۔ آئین میں ترمیم کرنا پارلیمان کی صوابدید ہے لیکن ترمیم کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ اس ضمن میں کوئی مشاورت نہیں کی گئی کیونکہ مقصد صرف سیاست ہے۔ ایک کابینہ ملک پر مسلط ہے کہ جس کی ایک آرا ہی نہیں ہے۔ شیری رحمن نے کہا کہ راتوں رات آرڈیننس لا کر آئینی بحران پیدا کردیا ہے کیونکہ ان کے ہاتھ میں لگتا ہے ان کے مہرے نہیں ہیں۔ رضا ربانی نے کہا کہ قانون میں گنجائش موجود ہے کہ اس آرڈیننس کو چیلنج کیا جائے۔ہم اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔ حکومت آئین کے تحت کام کرنے والے اداروں کے ساتھ کھلواڑ کر رہی ہے۔ کابینہ نابینا ہے آئین نہیں پڑھ سکتی؟۔ مزید برآں پیپلزپارٹی کے سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ صدارتی آرڈیننس عدالت پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے۔ حکومت اپنے اندر کی بغاوت دبانا چاہتی ہے۔ سربراہ بی این پی سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ آئین میں ترمیم صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ممکن نہیں۔ سینٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں کے دوران آرڈیننس جاری کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ صدر کے خلاف مقدمہ درج ہونا چاہیے۔ اپوزیشن جماعتیں سنجیدگی سے صدر کے مواخذے کا لائحہ عمل تیار کریں۔