• news

صدارتی آرڈیننس مفروضوں پر جاری ہوا، جسٹس گلزار: عدالتی رائے حکومتی موقف سے مختلف ہوئی تو ختم ہوجائیگا، جسٹس اعجاز الاحسن

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے  سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے سے متعلق دائر صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ حکومت نے پتہ نہیں کیسے الیکشن ترمیمی آرڈیننس جاری کر دیا ہے، مفروضوں کی بنا پر آرڈیننس جاری کیا گیا۔ حکومت کچھ بھی کر سکتی ہے، حکومت کو کوئی نہیں روک سکتا۔ عدالت نے الیکشن ترمیمی آرڈیننس کے خلاف جمعیت علما اسلام  (ف) کی درخواست ابتدائی سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر دیا۔ پیر کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کروانے سے متعلق دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔ جمعیت علما اسلام کے وکیل کامران مرتضی نے مؤقف اپنایا کہ حکومت نے اوپن بیلٹ کیلئے آرڈیننس جاری کردیا۔ حکومت نے عدالتی کارروائی کا ذرا بھی احترام نہیں کیا، آج تک ایسی قانون سازی نہیں ہوئی۔ سپریم کورٹ صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کے معاملے کا نوٹس لے۔ دوران سماعت سینٹر رضا ربانی نے موقف اپنایا کہ آرڈیننس جاری کر کے عجیب و غریب حالات پیدا کیے گئے۔ عدالت کی رائے اگر حکومت سے مختلف ہوتی ہے تو آرڈیننس کا کیا ہوگا۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت نے صرف قیاس آرائیوں پر آرڈیننس جاری کیا۔ ہم حکومت کو آرڈیننس جاری کرنے سے روک تو نہیں سکتے، پھر بھی ہم اس معاملے پر اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں۔ آرڈیننس کا عدالتی کارروائی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ آرڈیننس اگر مشروط نہ ہوتا تو کالعدم قرار دے دیتے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آرڈیننس تو عدالتی رائے سے مشروط ہے، عدالتی رائے حکومتی موقف سے مختلف ہوئی تو آرڈیننس ختم ہو جائے گا۔ آرڈیننس میں یہ بھی لکھا ہے کہ عملدرآمد عدالتی رائے سے مشروط ہو گا۔ آرڈیننس کو ہائیکورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ ایسا نہیں لگتا کہ سپریم کورٹ کی رائے 11 فروری سے پہلے آسکے گی۔ بدقسمتی سے اعتراض کرنے والوں نے قانون پڑھنا گوارا نہیں کیا۔ اگر عدالت کی رائے نہ آئی تو سینٹ الیکشن خفیہ رائے شماری سے ہی ہوگا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ سینٹ میچور افراد کا ایوان ہے۔ سینٹ میں اسمبلی کی طرح جھگڑے نہیں ہوتے تھے۔ جس دن یہ آبزرویشن دی تھی اسی دن جھگڑا ہو گیا۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ باہر کی اسمبلیوں میں تو کرسیاں چل جاتی ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان میں شاید اسمبلی کی کرسیاں اسی لیے فکس ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ امریکی اسمبلی میں تو لوگوں نے گھس کر توڑ پھوڑ کی تھی۔ اس قسم کے واقعات پوری دنیا میں ہوتے ہیں، انتخابات صاف اور شفاف ہونے چاہیئں، بدیانت لوگوں کو منتخب نہیں ہونا چاہیے، چاہتے ہیں انتحابی عمل میں شفافیت ہو اور کرپشن ختم ہو، سیاسی جماعتیں شفافیت چاہتی ہیں تو جمعرات کو کیا ہوا تھا؟۔ اسمبلی میں تو بہت مختلف موقف سامنے آیا تھا۔ سینیٹر رضا ربانی نے عدالت کو بتایا کہ پیپلز پارٹی کا موقف سندھ حکومت کے ذریعے آچکا ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت سینٹ میں بدعنوان لوگوں کی نمائندگی کی حامی نہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پارٹی اور حکومت دونوں مختلف باتیں ہیں۔ پارٹی حکومت اور حکومت پارٹی کی جانب سے جواب نہیں دے سکتی۔ دوران سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے میں آئین کے ڈھانچے کو سمجھنے کی کھوج میں ہوں۔ میں یہ تلاش کر رہا ہوں کہ آرٹیکل 226 کے تحت وزیراعظم اور وزرائے اعلی سمیت دیگر انتخابات کا طریقہ کار خفیہ کیوں رکھا گیا، ہم نے اپنے ملک میں اچھے سیاست دان بھی دیکھے ہیں، ہمیں سب سیاست دانوں کو ایک ترازو میں نہیں تولنا چاہیے، سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں کہا کہ پارٹی وفاداری نظریات سے ہوتی ہے، اس سارے عمل میں وقت درکار ہے، 1985 کے عام انتخابات کی مثال ہمارے سامنے ہے،1985 کے انتخابات غیرجماعتی بنیاد پر ہوئے، محمد خان جونیجو نے حکومت بنائی اور پیسے کا بے دریغ استعمال ہوا، جس پر اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ میں نے پہلے بھی وضاحت کی تھی کہ آئین بنانے والوں میں ذوالفقار علی بھٹو، ولی خان، مفتی محمود اور نوابزادہ نصراللہ جیسے لوگ شامل تھے، سپریم کورٹ پیسے لے کر ووٹ فروخت کرنے والوں کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند کر دے۔ جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اکبرخان بگٹی اور غوث بخش بزنجو بھی شامل تھے، اکبر بگٹی اور غوث بخش بزنجو اپنے اصولوں پر ڈٹے رہنے والے سیاستدان تھے۔ بعدازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل بدھ تک ملتوی کر دی۔

ای پیپر-دی نیشن