• news

مسلم ممالک کے سربراہ اسلام مخالف حملے روکیں ، غریب پر بلاواسطہ ٹیکس کا بوجھ کم کیا جائے: عمران

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ملک کے زرعی شعبے کی بحالی کے حوالے سے اصلاحات پر جائزہ اجلاس ہوا، دریں اثنا وزیراعظم کی صدارت میں موسمیاتی تبدیلی کی کمیٹی کا اجلاس ہوا، جبکہ سیاحت کے فروغ کے لئے رابطہ کمیٹی کا بھی اجلاس ہوا، زرعی شعبہ کے اجلاس میں وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی، وزیر برائے اقتصادی امور مخدوم خسرو بختیار، وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ، وزیر برائے نیشنل فوڈ سکیورٹی سید فخر امام، مشیر وزیراعظم ڈاکٹر عشرت حسین، وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار، وزیر اعلی خیبر پختون خواہ محمود خان، معاونین خصوصی ڈاکٹر معید یوسف، ڈاکٹر وقار مسعود، گورنر سٹیٹ بنک ڈاکٹر رضا باقر، پنجاب اور خیبر پختون خواہ کے  صوبائی وزراء مخدوم ہاشم جواں بخت، محمد سبطین خان، حسین جہانیاں گردیزی، سید صمصام حسین بخاری، سردار حسنین بہادر دریشک، تیمور سلیم جھگڑا، سید محمد اشتیاق، نجی شعبے کے نمائندگان اور متعلقہ محکموں کے سینئر افسران شریک تھے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ ملکی مجموعی پیداوار میں زرعی شعبے کا حصہ موجود استعداد سے کم ہے۔ اسی طرح گندم چاول، مکئی، کپاس اور گنے کی پیداوار بھی خطے کے مقابلے میں کم ہے۔ سال 2020 ملکی مجموعی پیداوار میں زرعی شعبے کا حصہ49ارب ڈالر رہا جس میں اکتیس ارب ڈالر لائیو سٹاک، ایک ارب فشریز جبکہ سترہ ارب ڈالر زرعی فصلوں کی مد میں ریکارڈ کیا گیا۔ اجناس کے حوالے سے بتایا گیا کہ گندم کی فصل میں ملکی اوسطاً  پیداراو 29من فی ایکٹر، چاول 50من، مکئی57من، کاٹن18 اور گنے کی پیداوار 656من رہی ہے۔   اجلاس کو بتایا گیا کہ اس وقت کسان کو فی ایکڑ140ڈالر ایگری کریڈٹ دستیاب ہے جبکہ بھارت میں یہ 369ڈالر، امریکہ میں 192جبکہ چین میں 628ڈالر میسر آ رہا ہے۔ سبسڈی کی مد میں بھی ہمارے کسان کو دیگر ممالک کے مقابلے میں کم معاونت میسر ہے جو کہ اوسطاً 27ڈالر فی ایکڑ ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فوڈ سکیورٹی کو یقینی بنانا، زرعی شعبے کا فروغ اور کسان کو اس کا جائز حق دلواناموجودہ حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ ماضی میں اس شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور ٹیکنالوجی کے فروغ کو نظر انداز کیاگیا جس کا خمیازہ ہمارے کسان اور ملکی معیشت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملک کی بڑھتی آبادی کے پیش نظر فوڈ سکیورٹی کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے، خوراک کی درآمدات پر آنے والے اخراجات میں کمی لانے اور شعبے میں موجود پوٹینشل کو برؤے کار لانے کے لئے زرعی شعبے کی بحالی اور ترقی ایک قومی ترجیح ہے اجلاس میں زرعی شعبے کے فروغ کے حوالے سے وزیرِ اعظم کی زیر صدارت اعلیٰ سطحی کمیٹی کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ،جو ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان کو حتمی شکل دیکر وزیرِ اعظم کو پیش کرے گی۔ وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کا اجلاس ہوا۔ معاون خصوصی ملک امین اسلم نے دس ارب درختوں کے منصوبے پر پیشرفت سے آگاہ کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے ہدایات جاری کیں کہ بلین ٹری منصوبے میں مزید شفافیت لائی جائے،  وزیراعظم نے کہا کہ سیاحتی مقامات کی ترقی کے لئے ست قبل فزیبلٹی تیار کی جائے اور مقامی ورثہ کا بھی تحفظ ہونا چاہئے‘ منصوبہ بندی کی جائے۔  وزیراعظم  نے ہدایت کی کہ تجاوزات کے خلاف آپریشن بلاامتیاز جاری رکھا جائے‘ کوئی  بھی قانون سے بالا نہیں ہے‘  سیاحتی مقام  پر عمل کام شروع ہونے سے قبل  بائی لاز اور ریگولیشن جاری کئے جائیں۔ وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت حکومتی معاشی ٹیم کا اجلاس ہوا‘ اجلاس میں بنیادی اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں کمی لانے اور عام آدمی کو  ریلیف فراہم کرنے کے حوالے سے ممکنہ اقدامات پر غور کیا گیا۔  وزیراعظم عمران خان نے اجلاس  سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت کی اولین ترجیحی عام آدمی کا مفاد ہے۔ ان کو  ہرممکنہ  ریلیف فراہم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ بالواسطہ  ٹیکسز کا بوجھ سب سے زیادہ غریب طبقات پر پڑتا ہے لہذا بالواسطہ  ٹیکسز کا بوجھ کم کرنے پر خصوصی توجہ دی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم نے معاشی ٹیم کو ہدایت کی کہ درآمد شدہ کھانے پینے کی مختلف اشیاء پر عائد ٹیکسز میں بھی کمی لانے کے حوالے سے بھی تجاویز پیش کی جائیں۔ تاکہ  عوام بالخصوص غریب اور مڈل کلاس کو ریلیف فراہم کیا جا سکے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک وزیراعظم اور وزراء کی چوری سے تباہ ہوتے ہیں اور ہمارے معاشرے مثال لے لیں جہاں کروڑوں روپے کی کرپشن کے بعد سیاسی جماعتوں کے رہنما کہتے ہیں کہ ہمیں این آر او دے دو۔ قیام پاکستان کے لیے تقریبا تمام دینی حلقوں نے قائد اعظم کا ساتھ دیا اور آج علما کا بہت بڑا کردار ادا کرنا جس مقصد کے لیے پاکستان تشکیل پایا تھا۔ قائد اعظم پاکستان کو بطور اسلامی فلاحی ریاست دنیا کا رول ماڈل بنانا چاہتے تھے۔ ان خیالات کا اظہار وزیراعظم عمران خان نے یہاں  علماء و مشائخ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہر سال ایک ہزار ارب ڈالر غریب ملک سے چوری ہو کر امیر ملک جاتا ہے۔ وزیراعظم نے اسلامو فوبیا سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ مغرب نے اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑ دیا اور مسلم ممالک کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ اسلام کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور مسلمان لیڈر شپ نے اس امر کی کبھی وضاحت نہیں کی۔ عمران خان نے کہا کہ نائن الیون سے پہلے سب سے زیادہ خود کش حملے بھارت میں تامل نے کیے تھے اور وہ بندو تھے لیکن کسی نے انہیں دہشت گرد نہیں کہا۔ مسلم لیڈر شپ کو عالمی فورم پر مغربی ممالک کے رہنماں کو سمجھنا چاہیے تھا کہ آزادی اظہار اور پیغمبر کی ناموس میں کیا فرق ہے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ جب اسلام کو دہشت گردی کے نتھی کردیا گیا تو سوچ کے اعتبار سے مسلمانوں کی تقریق برقرار نہیں رہی اور مغرب میں تمام مسلمانوں ایک ہی نظر سے دیکھے جانے لگے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب میں اسرائیل اور یہودیوں کے خلاف کوئی ایک لفظ ادا نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ میں اسلام کا سکالر نہیں لیکن ایک طالبعلم ہوں، میرا ایمان ہے کہ جو مدینہ کی ریاست تھی اور جو قوم اس ریاست کے اصولوں پر چلے گا اس قوم کو عروج ملے گا اور اگر وہ قوم مسلمان نہ بھی تو اسے عروج ملے گا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کوئی معاشرہ قانون کی بالادستی کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا، آج ہمارے معاشرے کی مثال لے لیں جہاں کروڑوں روپے کی کرپشن کے بعد سیاسی جماعتوں کے رہنما کہتے ہیں کہ ہمیں این آر او دے دو۔ چھوٹے چوروں کی چوری سے ملک تباہ نہیں ہوتا، ملک تباہ ہوتا ہے جب اس کا وزیراعظم اور وزیر چوری شروع کردیں۔ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کا نام لیے بغیر کہا کہ چند صحافی سپریم کورٹ کے سزا یافتہ مجرم اور جھوٹ بول کر بیرون ملک جانے والے کے بارے میں کہتے ہیں کہ انہیں تقریر کرنے کی اجازت دی جائے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب پولیس افسر یا پٹواری رشوت لیتے ہوئے خوفزدہ نہ ہو۔

ای پیپر-دی نیشن