چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی خود نوشت
’’سوانح عمریوں‘‘ میں عام طور پر ’’پدرم سلطان بود‘‘ کا ہی چرچا ہوتا ہے ، عجز کم کم ہی دکھائی دیتا ہے ،
’’شان سکندری‘‘ کا تذکرہ بڑے شد و مد ے ہوتا ہے۔ خاندانی جاہ و جلال کے قصیدے خوب پڑھے جاتے ہیں۔ دنیا کو مرعوب کرنے کے لیے تفاخر حسب و نسب کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے۔ آباء و اجداد کی روایات کو اس قدر درخشندہ بتایا جاتا ہے کہ ’’دروغ برگردن راوی‘‘ کا تکلف بھی ’’علمی خیانت‘‘ تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم قاری کو ایسے رطب و یا بس سے کوئی غرض نہیں ہوتی البتہ اس کا تجسس جہد مسلسل اور ’’نہال گلستان کی آبیاری‘‘ پروان چڑھنے کے مراحل کے بارے میں ہی ہوتا ہے۔البتہ کئی ’’خود نوشت‘‘ ایسی ضرور ہوتی ہیں جو زندگیوں میں انقلاب بپا کردیتی ہیں۔ ’’ارشاد نامہ‘‘ بھی ایسی ہی خود نوشت ہے جو نوجوانوں میں نہ صرف تبدیلی اور لگن پیدا کرتی ہے بلکہ تبدیلی کے ’’بیج‘‘ کو انقلاب کا شجر ثمر دار بنا دیتی ہے۔ آنے والی نسلیں مدتوں اس سے مستفید ہوتی رہیں گی۔ ’’ارشاد نامہ‘‘ سابق چیف جسٹس پاکستان ارشاد حسن خان کی زندگی کی کہانی خود ان کی زبانی ہے۔ ’’ارشاد نامہ ‘‘ جہاں مصنف کی جہد مسلسل کو لمحہ لمحہ بیان کرتی ہے وہیں مصنف (جسٹس ارشاد حسن خان) کے توکل علی اللہ کے مضبوط عقیدے اور اس ذات پاک کی رحمت سے کبھی بھی مایوس نہ ہونے کے مضبوط ایمان و ایقان کا بھی تذکرہ کرتی ہے۔ ایس ایم ظفر ، وسیم سجاد ، اعتزاز احسن اور حفیظ الرحمن قریشی سمیت ماہرین آئین و قانون اور شناسان علم و ادب نے ’’ارشاد نامہ‘‘ کو ایک علمی ، تاریخی اثاثہ قرار دیا ہے۔ جسٹس ارشاد حسن خان کی اس خودنوشت میں جہاں اور بہت کچھ ہے وہیں نوجوانوں ، قانون کے طلبہ ، نوجوان وکلاء ، ججز ، ارکان پارلیمنٹ ، عوامی نمائندگی کے دعویداروں ، سیاستدانوں ، دانشوروں اور متلاشیان انصاف کے لیے اپنے اپنے ظرف کے مطابق رہنمائی موجود ہے۔ ’’ارشاد نامہ‘‘ بتاتی ہے کہ کس طرح ایک نوجوان توکل علی اللہ اور اس کی دی ہوئی ہمت اور توفیق سے بتدریج منازل اور مراحل طے کرتا رہا۔ لڑکپن کے کئی دلچسپ واقعات بھی ہیں، کئی واقعات میں تو جذباتیت نے بھی رنگ دکھایا ہے جس میں ان کے سکول ، کالج کے واقعات ہیں اور خصوصاً گورنمنٹ کالج (یونیورسٹی) میں ان کے بیتے دن بڑی خوشگوار یادوں کو آفتاب و ماہتاب کی گردشوں میں چھپائے ہوئے ہیں۔ ’’ارشاد نامہ‘‘ میں جسٹس ارشاد حسن خان نے گورنمنٹ کالج میں بی اے میں داخلے کا واقعہ بڑے ہی دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے جو واقعی ’’جوانی مستانی‘‘ ہوتی ہے کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔ ’’کالج میں داخلہ کمیٹی کے سامنے انٹرویو کے لیے پیش ہوئے تو کہنے لگے کہ سر! کالج میں داخل ہونے کے لیے میری ایک پیشگی شرط ہے ، جس پر کالج کی داخلہ کمیٹی کے تمام ارکان نے قہقہ لگایا ، پرنسپل نے پوچھا کیا شرط ہے تو میں نے بتایا کہ میں کراچی کے تفریحی سفر پر جانا چاہتا ہوں۔ ایک ماہ بعد واپس آئوں گا۔ پیسے بچ گئے تو کالج کی داخلہ فیس اور دیگر واجبات جمع کرا دوں گا جس پر داخلہ کمیٹی کے ایک سینئر ممبر نے کہا کہ Getout کمرے سے باہر نکل جائو۔‘‘ وکالت کے ابتدائی دنوں کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ ایک مکان کے ’’کلیم فارم‘‘ پُر کرنے کی پہلی فیس 300 روپے لئے (یہ ایسے ہی تھا جیسے آجکل نوجوان وکلاء پہلے دن مچلکے پُر کرنے کی مشق کرتے ہیں) جونیئر وکلاء کے ساتھ سینئر وکلاء کا جو ’’حسن سلوک‘‘ ہوتا ہے کتاب اس کی بھی مکمل عکاسی کرتی ہے۔ جسٹس ارشاد حسن خان لکھتے ہیں کہ سینئر نے ایک کتاب مانگی۔ ڈھونڈنے میں تاخیر ہوئی تو وہ سخت ناراض ہوئے اور کہنے لگے کہ آپ نے اتنی دیر لگا دی ایک کتاب ڈھونڈنے میں۔ آپ وکالت نہیں کر سکتے۔ اسی طرح نوجوان وکلاء جب پہلی پہلی بار عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں تو آداب ملحوظ خاطر رکھتے اور معزز ججز کے شایان شان القاب و الفاظ بولنے میں اکثر ’’بے ادبی‘‘ کے مرتکب ہوتے ہیں اور بعض اوقات معزز ججز کے ہر جملے پر ’’جی سر‘ جی جناب‘ اوکے سر‘‘ جیسے الفاظ سوچے سمجھے بغیر ہی بولے جا رہے ہوتے ہیں۔ جیسے ’’ارشاد نامہ‘‘ میں ہے کہ ہائیکورٹ میں جسٹس ارشاد حسن خان کی بطور وکیل پیشی کے دوران معزز جسٹس نے کہا کہ یہ ’’غیر سنجیدہ درخواست ہے۔‘‘ اس پر جسٹس ارشاد حسن خان نے کہا کہ Exactly my lord اسی طرح جب انہوں نے دوسری بار Exactly my lord کہا تو ہائیکورٹ کے وہ معزز ججز (جوکہ درخواست کی سماعت کر رہے تھے) سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے کہ ’’یا اللہ بار کو کیا ہو گیا ہے۔ آپ کچھ جانتے ہی نہیں۔‘‘ اسی طرح جسٹس ارشاد حسن خان نے دوران وکالت ’’فن وکالت‘‘ سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ کبھی جذباتیت‘ کبھی سنجیدگی‘ کبھی شعروادب سے ججز کو ’’مرعوب‘‘ کرکے اپنے سائلوں کو انصاف دلایا۔ عدلیہ کیلئے آپ کی شاندار خدمات کا احاطہ تو ’’ارشاد نامہ‘‘ کے ذریعے ممکن نہیں‘ تاہم ہائیکورٹ کا جج بننے سے لیکر چیف جسٹس آف پاکستان کا منصب سنبھالنے‘ سیکرٹری قانون رہنے‘ چیف الیکشن کمشنر بننے تک کئی اہم واقعات ضرور ملتے ہیں جو وکلاء اور ججز کیلئے یقینا رہنما بن سکتے ہیں۔ چیف جسٹس ارشاد حسن خان کے بعد بھی ہماری عدلیہ میں کئی ایسے ستارے موجود ہیں جو یقینا ’’تاریک راتوں‘‘ میں چمکتے رہتے ہیں جس پر بلامبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ ’’ہمارے بعد اندھیرا نہیں ، اجالا ہے۔‘‘جن میں شیخ اعجاز احمد جیسے معزز جج بھی شامل ہیں۔ عدلیہ کی تاریخ اور قانون و انصاف کی دستاویزات ایسے ججز پر ہمیشہ نازاں رہے گی کیونکہ جسٹس ارشاد حسن خان نے اللہ کی عطا کردہ توفیق‘ ہمت اور قوت سے ثابت کر دکھایا کہ؎
بشر کو ہے لازم کہ ہمت نہ ہارے
جہاں تک ہو سکے‘ کام اپنے آپ سنوارے
خدا کے سوا چھوڑ دے سب سہارے
ہیں عارضی روز کمزور سارے