یاد دِل سے تری نہیں جاتی
کچھ ماہ پہلے میری دوست آمنہ الفت نے پنجاب مسلم لیگ ہائوس میں میلاد کی محفل میں میرے علاوہ بہت سی خواتین کو مدعو کیا۔ اُن میں نادرہ افضل وٹو بھی شامل تھیں۔ نادرہ افضل وٹو کا بچپن میری طرح سنت نگر میں گذرا۔ وہ میری پھوپھو سیما کی کلاس فیلو تھیں۔ اُن کے والد ملک غلام حسن اور اُن کے چچا ملک غلام کبریا کے صوفی صاحب کے ساتھ نجی تعلقات تھے۔ میلاد کی دعا میں خاص طور پر مسلم لیگ ق کے شجاعت حسین کی زندگی اور صحت کے لیے بھی دعائیں مانگی گئیں، اُن دنوں وہ علیل تھے اور ہسپتال میں داخل تھے۔ دعا کے بعد ہم دونوں اپنے اپنے بچپن کے قصے کہانیاں یاد کرنے لگے۔ وہ زمانہ بھی کیا زمانہ تھا جہاں ہمسائے رشتے داروں سے کہیں بڑھ کر ہوتے۔ ہمسایوں کی بہو بیٹیوں کو اپنی بہو بیٹیوں سے بھی زیادہ عزت واحترام دیا جاتا تھا۔ اُن کا گھر صوفی تبسم کے گھر کے ساتھ ہی واقع تھا۔ میں نے اپنے دادا صوفی تبسم کا ذکر کیا تو وہ آبدیدہ ہوگئیں۔ مجھے بھی وہ اپنے خوبصورت بچپن کی یادوں میں گھیر کر اُسی محلے میں لے گئیں جہاں اس خوبصورت حویلی میں صوفی تبسم کے چار خاندان پارٹیشن کے بعد قیام پذیر تھے۔ سنت نگر کی یہ حویلی ایک ہندو پروفیسر کی ملکیت تھی اور ۱۹۴۷ء میں ہی تعمیر کی گئی تھی مگر جب لاہور میں پارٹیشن ہونے کی وجہ سے حالات خراب ہونے لگے تو وہ یہ حویلی امانت کے طور پر صوفی صاحب کے حوالے کر گئے اور اپنے گھر کی چیزوں کو بھی امانت کے طور پر صوفی صاحب کے پاس رکھوا گئے۔ صوفی صاحب نے معذرت چاہی مگر اُس نے صوفی صاحب کو یہ کہا کہ آخر آپ کا خاندان بھی تو امرتسر میں گھربار چھوڑ کر لاہور آگیا ہے، آپ کا خاندان کہاں رہے گا اور پھر میں دوبارہ آنے کی کوشش تو کروں گا اگر حالات بہتر ہوئے تو میں اپنا گھر آپ سے لے لوں گا اور اگر واپسی کا کوئی راستہ نہ ہوا تو پھر میں آپ سے اپنا سامان وغیرہ ضرور لے جائوں گا۔ آپ اگر اس گھر میں نہ رہے تو شاید مجھے کوئی بھی چیز نہ مل پائے۔ وہ حویلی آج بھی سنت نگر میں موجود ہے۔ ہندو پروفیسر جن کا نام مجھے یاد نہیں واپس آکر اپنی امانت تو لے گئے مگر گھر صوفی صاحب کو سونپ گئے۔ وہ گھر صوفی تبسم کا تو نہ ہوسکا البتہ اُن کے چھوٹے بھائی نے دعویٰ (Claim) میں اپنے نام کروالیا۔ صوفی تبسم درویش منش انسان تھے وہ چاہتے تو اپنے لیے گھر دکانیں جو اُنہیں بڑی آسانی سے دعویٰ (Claim) میں مل سکتی تھیں لینے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اُس وقت صوفی صاحب گورنمنٹ کالج میں پروفیسر تھے۔ صوفی صاحب اس طرف توجہ کیوں کرتے وہ تو پاکستان بنانے کی خوشی میں سرشار تھے۔ انہوں نے اپنی تعلیم اور محنت کے بل بوتے پر ہی اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی کو بہتر سے بہتر بنایا۔ اس حویلی میں صوفی صاحب کے ساتھ اُن کے تین بہن بھائی اپنی فیملیز کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ صوفی تبسم کی والدہ جو اس وقت حیات تھیں لاہور آنے کے بعد امرتسر کو یاد کرتیں اپنے گھر کو یاد کرتیں جہاں وہ کئی سالوں سے رہائش پذیر تھیں۔ اُسے بھولنا اُن کے لیے انتہائی مشکل تھا وہ یہ سوچ کر لاہور آئیں تھیں کہ کچھ دن بعد واپس اپنے گھر جائیں گی اور اگر گھر چھوڑنا بھی پڑا تو کم از کم اپنی قیمتی اشیاء اور اپنی نواسی کا جہیز جو گھر میں ہی رکھا ہوا تھا ضرور لے آئیں گی۔ اُنہوں نے حالات کے پیش نظر جلدی جلدی گھر کو تالا لگایا اور چابیاں لے کر لاہور آگئیں۔ بعد میں نہ تو وہ امرتسر جاسکیں اور نہ ہی اپنے گھر پر الوداعی نظر ہی ڈال سکیں۔
اس نئی حویلی میں صوفی تبسم اور اُن کے خاندان کے افراد نے بچوں سمیت کئی سال گذارے۔ وقت کا مرہم اُن کے زخموںکو بھرتا چلا گیا اور سب ہنسی خوشی اپنی زندگی کی پی کاٹنے لگے اور آخرکار اللہ تعالیٰ نے سب کو ہجرت اور محنت کے صلے میں اپنے اپنے گھر دے دئیے۔ حویلی میں جو ماحول میں نے بچپن میں دیکھا اُس سے مجھے امرتسر کے رہن سہن کا پتا چلتا ہے۔ آج جب میں سوچتی ہوں اور لکھ رہی ہوں تو وہاں کے ماحول کو بخوبی محسوس کررہی ہوں گو کہ میں امرتسر میں ایک دو بار جا چکی ہوں مگر میرے میزبان ڈاکٹر ترن کمار نے مجھے میرے آبائی گھر تک رسائی فراہم ہی نہ کی بالکل قریب رہ کر بھی وہ وہاں جانے کے لیے روڑے اٹکاتے رہے اور کوئی نہ کوئی بہانہ لگا کر مجھے اُسے دیکھنے سے محروم رکھا۔ جس کا مجھے بہت افسوس رہے گا۔ میں جب بھی انڈیا کلچرل ڈیلیگیشن Deligation یا مشاعرہ پڑھنے جاتی میرے والد صوفی گلزار احمد امرتسر کی ہر گلی سڑک اور اپنے گھر کے نقشے سمجھاتے کہ میں ضرور دیکھ کر آئوں اور آکر وہاں کا حال احوال اُنہیں بتائوں وہ اپنے گھر ، محلے اور شہر امرتسر کو کب بھول پائے تھے جسے گھر کے سب بزرگ امبرسر کہتے تھے۔(جاری)