سینٹ الیکشن کے بعد حکومت کو پی ڈی ایم کے لانگ مارچ سے نمٹنے کا چیلنج
سہیل عبدالناصر
رواں برس کا پہلا نصف حصہ اہم ثابت ہونے جا رہا ہے جس کے نتیجہ میں ملکی سیاست کے خدو خال مزید واضح ہو جائیں گے۔ سینیٹ الیکشن کیلئے گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے۔ڈرائینگ روم، جوڑ توڑ کی سیاست کا مرکز بنے ہوئے ہیں اور الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعہ کرانے کے معاملہ پر قانونی لڑائی عدالت عظمٰی میں لڑی جا رہی ہے۔ متناسب نمائندگی کے اصول کی وجہ سے سینیٹ الیکشن میں نمبرز گیم کی جانچ قدرے پیچیدہ اور تکنیکی معاملہ بن جاتا ہے لیکن ہارس ٹریڈنگ کی لعنت نے تو گنتی کرنے کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔خیر اگلے ماہکے پہلے ہفتے تک یہ انتخابی بخار اتر چکا ہو گا اورایوان بالا میں پارٹی پوزیشن واضح ہو جائے گی۔ تحریک انصاف کو اکثریتی پارٹی کے طور پر ابھرنا چاہیئے لیکن اسے اپوزیشن پرایسی نمایاں برتری حاصل ہونے کا امکان نہیں جو تحریک انصاف کو قانون سازی اور گورنینس کے شعبوں میںسکھ کا سانس لینے کا موقع فراہم کرے۔ سینیٹ الیکشن کے فوراً بعد حکومت کو26 مارچ سے شروع ہونے والے پی ڈی ایم کیلانگ مارچ سے نمٹنے کا چیلنج درپیش ہو گا۔مارچ اور اپریل کے مہینوںمیںبری فوج کے اندر بھی معمولکے مطابق ہونے والے اعلیٰ سطح کے تبادلے متوقع ہیں چنانچہ میڈیا کیلئے خبروںکی کمی نہیں ہو گی۔ اپوزیشن اور وزراء مسلسل ایک دوسرے کے خلاف صف آراء رہیں گے۔
دستور میں ایوان بالا کی گنجائش اس لئے رکھی گئی تھی کہ وفاقی کی تمام اکائیوں کو آبادی کے حجم سے بالا ترہو کراس ایوان میں مساوی نمائندگی حاصل ہو سکے لیکن ہوا یہ کہ دستور کی روح کے سرا سر خلاف ، حکمران اشرافیہ نے بتدریج ایوان بالا پر قبضہ جما لیا۔ پارلیمنٹ اور دیگر منتخب اداروں کی مخصوس نشستوں کابھی یہی انجام ہوا کہ،بیٹوں بھتیجوں، دامادوں اورچہیتوں کونامزد کیا جانے لگا۔ پارٹی کیلئے فنڈنگ کے نام پر بھاری رقوم کے عوض طبقہ امر نے بھی سینیٹ کا راستہ دیکھ لیا۔سینیٹروں اور مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان کی فہرستیں کھنگالیں تو بہت بڑی اکثریت کے کھرے،سیاسی جماعتوں کے مالک خاندانوں، امرائوروسائ، مقتدرہ کے حمایت یافتگان تکجا پہنچیں گے۔دستور میںسینیٹروں کے الیکشن کیلئے خفیہ رائے شماری کی شق اس لئے شامل کی گئی تھی کہارکان ، تمام تر دبائو سے آزاد ہو کر ، ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ووٹ ڈالیں لیکناس شق کی روح کو بھی پامال کرتے ہوئے، اسے بدترین ہارس ٹریڈنگ اور من پسند نتائج حاصل کرنے کا ذریعہ بنا لیا گیا۔ سینیٹ الیکشن ، اوپن بیلٹ کے ذریعہ کرانے کے صدارتی ریفرنس کا معاملہ اب سپریم کورٹ میںزیر سماعت ہے۔ منگل کے روز عدالت عظمیٰ نے الیکش کمیشن سے سینیٹ الیکشن کو شفاف رکھنے،پیسے کا استعمال اور دبائو ختم کرانے کیلئے تجاویز طلب کر لی ہیں۔سینیٹ کے گزشتہ انتخاب کے موقع پر خیبر پختونخواہ اسمبلی میں ووٹوں کی خرید و فروخت کی ویڈیو منظر عام پر آنے کا طوفان ابھی تھما نہیں ہے۔ پیسے لینے اور دینے والوں کی طرف سے تردیدوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس ویڈیو نے پاکستان کے سیاسی و جمہوری عمل پر جو کاری جرب لگائی ہے اس کے اثرات تا دیر موجود رہیں گے۔ بہرحال سیاسی جماعتوں میں خاندانوں اور قائدین کی آمریت کے باوجود، پارٹی کیڈر کا دبائوبھی کسی نہ کسی حد تک موجود ہے جو نتیجہ خیزبھی ثابت ہو سکتا ہے۔ نظریاتی کارکنوں کے احتجاج پرپی ٹی آئی بلوچستان میں نووارد عبدالقادر سے ٹکٹ کی واپسی اور سندھ میں سیف اللہ ابڑو کیلئے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر نظر ثانی جیسے واقعات امید کی کرن ہیں۔ بابر اعوان ، شہزاد اکبر، اور عبدالرزاق دائود جیسی شخصیات پارٹی ٹکٹ سے محروم رہی ہیں۔ حتیٰ تحریک انصاف کے پارلیمانی بورڈ کے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کو اعلان کرنا پڑا کہپیرا شوٹرز کو سپورٹ نہیں کیا جائے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ حفیط شیخ ، ثانیہ نشتر اور علی ظفر، کی شکل میں کسی قدر پیرا شوٹرز ٹکت لینے میں فی الحال کامیاب رہے ہیں۔ اسی طرح مسلم لیگ(ن) کے اندر بھی سینیٹ کے ٹکٹوں کے معاملہ پر کم شدت کی کشمکش موجود ہے۔ایکگروپ، آزمودہ سینیٹر مشاہداللہ کو ٹکٹ دینے کے خلاف ہے کہ وہ بیمار ہیں۔ کسی متحرکرہنماء کو امیدوار بنایا جائے ۔ایک گروپ کی طرف سے اعظم نزیر تارڑ کے بجائے سابق وزیر قانون زاہد حامدکو پارٹی امیدوار بنانے کیلئے بھی لابنگ کی جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی، سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک کو دستبردار کروا کر فرحت اللہ بابر جیسے متحرک پارلیمنٹیرین کو سینیٹ کا ٹکٹ دے سکتی ہے تو مسلم لیگ(ن) بھی راجہ ظفر الحق جیسے سربرآورد راہنماء اورنہائت تجربہ کارپارلیمنٹیرین کیلئے گنجائش پیدا کر سکتی تھی۔ جمعیت علماء اسلام (ف) میںاہل خاندان کو ٹکٹ دینے کی روائت قائم رہی لیکن سینیٹ الیکشن کیلئے ترپ کا پتہ بظاہر آصف علی زرداری نے کھیلا ہے جنہوں نے پی ڈی ایم جماعتوںکے اشتراک سے سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد ے امیدوار نامزد کیا ہے۔وفاقی دارلحکومت کی نشست کیلئے ارکان قومی اسمبلی ووٹ ڈالیں گے جہاں حکومت کو بمشکل اکثریت حاصل ہے۔اپوزیشن حلقوں میں باور کیا جاتا ہے کہ آصف علی زرداری کا جوڑ توڑ ،یوسف رضا گیلانی کی رشتہ داریاں اور پی ٹی آئی میںپیپلز پارٹی کے سابق ارکان کی خفیہ حمایت، اس نشست پر الیکشن کا پانسہ پلٹ سکتی ہے۔ اپوزیشن الیکشن جیت گئی تو کہا جائے گا کہ وزیر اعظم قومی اسمبلی کا اعتماد کھو چکے ہیں۔اسی دوران لندن مین مقیم سابق وزیر اعظم نواز شریف کے پاسپورٹ کی مدت بھی ختم ہو گئی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے میڈیا کو بتایا کہ نواز شریف کا پاسپورٹ ری نیو نہیں کیا جائے گا لیکن مسلم لیگ(ن) کو اس ضمن مین کوئی پریشانی لاحق نہیں ہے۔ شریف خاندان مہینوں پہلے اس معاملہ پرقانونی مشاورت مکمل کر کے اطمینان کر چکا ہے کہ نواز شریف کسی مشکل کا شکار نہیں ہوں گے۔