• news
  • image

سینٹ انتخابات، سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار

امین یوسف
 "آئین کے تحت ہونے والے تمام انتخابات ، وزیر اعظم اور وزرائے اعلی کے علاوہ ، خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوں گے‘‘ All elections under the Constitution, other than those of the Prime Minister and the Chief Minister, shall be by secret ballot  یہ وہ واضح الفاظ ہیںجوآئین پاکستان میں درج ہیں۔اس وقت ملک میں بھر میں یہ بحث جاری ہے کہ سینٹ کے انتخابات خفیہ رائے شماری کے ذریعہ صحیح ہیںیا اوپن بیلٹ کے ذریعے ضروری ہیں۔حکومت کا موقف ہے کہ اس اقدام سے سینٹ میں ووٹ کی خریداری کے ذریعہ ہونے والی بڑی کرپشن کو روکا جاسکے گا دوسری طرف اپوزیشن جماعت کا کہنا ہے کہ حکومت کی صفوں میں پڑنے والی دراڑوں کی وجہ سے وہ خوف زدہ ہے کہ شاید اس کے ارکان اپنے ہی امیدواروں کو ووٹ نہ دیں۔ اس بات کو تقویت اس سے بھی ملتی ہے کہ صرف تحریک انصاف ہی وہ جماعت ہے جس کے ارکان نے کھلم کھلا اپنے امیدواروں کی مخالفت کرتے ہوئے ووٹ نہ دینے کا اعلان کیا ہے ۔پنجاب میں ایک رکن صوبائی اسمبلی کی مخالفت کے بعد بلوچستان میں عبدالستار نامی شخص کو سینٹ کا ٹکٹ دینے پر پی ٹی آئی کو بھرپور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ سندھ میں سینٹ کے ٹکٹ دینے پر بھی خاصی لے دے ہوئی خصوصاوفاقی وزیر فیصل واوڈا اور سیف اللہ ابڑو کو مخالفت کا سامنا ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو شکست دے کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے پی ٹی آئی کے شکور شاد نے بر ملا یہ کہہ دیا کہ اگر کسی کارکن کے بجائے فیصل واوڈا اور سیف اللہ ابڑو کو سینیٹ کا ٹکٹ دیا گیا تو وہ اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کریں۔ پارٹی کے اندر سے آنے والے اعتراضات کے بعد وزیراعظم عمران خان نے بعض امیدواروں کے نام واپس لے لئے جبکہ پارٹی کے منتخب ارکان اور عہدیداروں سے ملاقات کا سلسلہ شروع کیا تاکہ ان کے تحفظات کو سن کر کوئی حتمی فیصلہ کیا جاسکے۔وفاقی حکومت کی جانب سے ایک سال قبل سینٹ انتخابات میں کھلی رائے شماری کرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا ۔اس کے لئے وفاقی کابینہ نے انتخابی اصلاحات سے متعلق سفارشات مرتب کرنے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی۔جس کا مقصد آئین اور انتخابی ایکٹ 2017 میں ترمیم کرنا تھا۔ اس ترمیم کے تحت سینیٹ انتخابات میں اوپن بیلٹ ، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کا حق ، دوہری شہریوں کو مشروط طور پر انتخابات لڑنے کی اجازت اور دیگر ترامیم شامل تھیں۔کمیٹی کی تجاویز پر ، وفاقی کابینہ نے اصلاحات پیکیج کی منظوری دی ۔حکومت نے قومی اسمبلی میں 26 ویں آئینی ترمیمی بل پیش کیا ، جسے قانون اور انصاف سے متعلق قائمہ کمیٹی کے پاس غور کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ اس نے سینیٹ انتخابات میں کھلی رائے شماری کی وضاحت کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل59 میں ترمیم کی۔ اس نے آرٹیکل 226 میں تبدیلی کا کہا گیا ۔اسے قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم کیلئے پیش کیا ۔تا ہم حکومت اس بل کو منظور کرانے میں ناکام رہی۔جس کے بعد صدارتی آرڈیننس کا سہارا لیا گیا۔اس آرڈیننس کو بھی اپوزیشن کی جماعتوں نے چیلنج کردیااب گیند سپریم کورٹ کے کورٹ میں ہے ۔پنجاب اور خیبر پختون خوا کے جوابات کے برخلاف ، حکومت سندھ نے صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے روبرو اپنا جواب جمع کراتے ہوئے کہا کہ آئندہ سینیٹ انتخابات کو کھلی رائے شماری کے ذریعے کرانے کے لئے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے۔صوبائی حکومت کی جانب سے سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل سلمان طالب الدین کے 18 صفحات پر مشتمل جواب میںموقف اختیار کیا گیا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات آئین کے تحت ہونے والے انتخابات ہیں جس کا اظہار آئین کے آرٹیکل 226 میں واضح ہے۔اوپن بیلٹ آئین میں شامل آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی جمہوری اقدار سے متصادم ہے۔لہذا ، انتخابات ایکٹ کی کوئی شق جو سینیٹ انتخابات کے انعقاد اور طریق کار کو منظم کرتی ہے ، ان کو آئین کے آرٹیکل 226 کے مطابق خفیہ رائے شماری کے ذریعے ووٹ ڈالنے کے آئینی تقاضے پر عمل کرنا چاہئے۔حکومت سندھ کا کہنا تھا کہ صدارتی ریفرنس سیاسی مہم جوئی کے لئے جاری کیا گیا۔اس صدارتی ریفرنس کو خارج کیا جائے عدالت عظمی کے سامنے اپنے ردعمل میں ، حکومت سندھ نے پیر کو عدالت عظمی میں دائر صدارتی ریفرنس کو اوپن بیلٹ سسٹم کے ذریعے سینیٹ کے انتخابات کروانے کے مطالبے کو مسترد کردیا۔حکومت سندھ کا موقف ہے کہ سینیٹ کے انتخابات آئین کے تحت ہوتے ہیں اور صدارتی حوالہ سے سیاسی ، معاشرتی اور اخلاقی اقدار کے بارے میں سوالات اٹھتے ہیں۔ ان کا آئین سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔وفاقی حکومت کے مطابق انتخابات کی نوعیت اور اس کے انعقاد کے بارے میں آئین میں واضح طور پر ذکر نہیں کیا گیا ہے۔.ریفرنس میںکہا گیا تھا کہ آرٹیکل 226 میں جس خفیہ رائے شماری کا حوالہ دیا گیا ہے وہ صرف آئین کے تحت ہونے والے انتخابات ، جیسے صدر ، اسپیکروں اور پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ڈپٹی اسپیکر کے دفاتر کے لئے انتخابات کے لئے قابل اطلاق ہے۔سینیٹ انتخابات کے لئے خفیہ رائے شماری کے طریقہ کار میں ترمیم کرنے والے صدارتی آرڈیننس کو جاری کرنے کے باوجود ، پی ٹی آئی حکومت کو الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 122 (6) میں مجوزہ ترمیم کے ساتھ سپریم کورٹ کے ذریعے سفر کرنے کیلئے ناممکن کام کا سامنا کرنا پڑا ہے۔الیکشن ایکٹ ملک کے تمام قوانین کی طرح آئین کے بھی ماتحت ہے ، اور آرٹیکل 226 کی آئینی شقوں کو رد نہیں کرسکتا ہے جس میں خاص طور پر سینیٹ کے انتخابات خفیہ رائے شماری کے ذریعے کروانے کی ضرورت ہے۔قانونی اورآئینی ماہرین نے نوائے وقت کو اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ اس بات کا امکان ہے کہ اس آرڈیننس کو کالعدم قرار دے دیا جائے گا۔صدارتی آرڈیننس نے حکومتی عہدوں میں موجود بہت سوں کو بھی حیرت میں ڈال دیا ۔ان کہنا تھا کہ ریفرنس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کیے بغیر ہی صدارتی آرڈیننس جلد بازی جاری کیا گیا ، پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران حکومت نے صدارتی آرڈیننس جاری کرکے آئین کی ایک اور خلاف ورزی کی ہے۔قطع نظر اس کے سپریم کورٹ کیا فیصلہ کرتی ہے۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ حکومت اوپن بیلٹ کے ذریعے اپنے آپ کو ایک مستحکم پوزیشن پر کھڑا کرنا چاہتی ہے ۔
سندھ میں صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی نے مارکہ مار لیا۔ پی ایس 88 ملیرکراچی اور پی ایس43 سانگھڑ سے پیپلز پارٹی کے امیدواروںمحمد یوسف بلوچ اور جام شبیر علی خان نے کامیابی حاصل کی ۔ان دو نشستوں کامیابی کے بعد سندھ اسمبلی پیپلز پارٹی کی پوزیشن اور مضبوط ہوگئی جس سے سینٹ کے الیکشن میں خاطر خواہ فائدہ ہوگا۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن