• news

بجلی 28 روپے یونٹ ہوگئی، اپوزیشن کا احتجاج، مائیک نہ ملنے پر سپیکر کا گھیرائو

اسلام آباد (نامہ نگار) قومی اسمبلی میں ملک میں مہنگائی، بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی تحریک پر بحث کا آغاز کر دیا گیا۔ اپوزیشن ارکان نے حکومت پر شدید تنقید کی جبکہ مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال نے بولنے کی اجازت نہ ملنے پر شدید احتجاج کیا اور سپیکر ڈائس کا گھیرائو کیا۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور سپیکر اسد قیصر میں تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ سپیکر قومی اسمبلی نے گزشتہ اجلاس کے بعد جاری ہونے والے آرڈیننسز کو پیر تک ایوان میں پیش کرنے کی رولنگ جاری کرد۔ وزیر توانائی عمر ایوب خان اور وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا کہ گزشتہ حکومتوں نے بجلی کے مہنگے منصوبے لگائے، ہم نے بدعنوانی اور کرپشن کو ختم کیا ہے، ان کی بارودی سرنگوں کا خمیازہ آج تک بھگت رہے ہیں، معیشت کا بیڑہ  غرق کر کے گئے تھے۔ مریم نواز نے بتایا کہ انڈے کلو کے حساب سے بکتے ہیں، یہ اس کا جواب دیں یہ کب ہوا ہے۔ جمعہ کو قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر اسد قیصر کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس میں  مہنگائی، بجلی، گیس اور پیٹرولیم  مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر بحث کا آغاز کیا گیا۔ اجلاس میں چیف وہپ عامر ڈوگر نے ملک میں مہنگائی، بجلی، گیس اور پیٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے  پر بحث کیلئے تحریک پیش کی۔ مہنگائی پر بحث کا آغاز مسلم لیگ (ن)کے قیصر احمد شیخ نے کیا۔ قیصر احمد شیخ نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس امیر پر نہیں غریب پر اثر انداز ہوتا ہے۔  چینی 53 سے بڑھ کر سو روپے کلو ہو گئی ہے۔ ملک کا بجٹ خسارہ بڑھ رہا ہے۔ بھارت دشمن ضرور ہے لیکن کاروبار میں دوستی دشمنی نہیں دیکھی جاتی۔ سپیکر اسد قیصر نے وزیر تونائی عمر ایوب کو فلور دیا تو اپوزیشن ارکان نے اس پر اعتراض کیا۔ مرتضی جاوید عباسی نے کہاکہ یہ اجلاس اپوزیشن کی ریکوزیشن پر بلایا گیا۔ پہلے اپوزیشن ممبران بات کرلیں پھر وزیر جواب دیں۔ اس کے بعد سپیکر نے فلور سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو دے دیا۔ راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ آج  مہنگائی کی وجہ سے عام آدمی کا جینا محال ہو گیا ہے۔ اڑھائی سال گزرنے کے بعد پاکستان کے عوام سوچتے ہیں کہ ان کے ساتھ جھوٹ بولا گیا اور دھوکہ کیا گیا۔  پچھلی حکومتوں کا رونا رو رہے ہیں، آپ نے کیا کیا۔ آج بجلی کا یونٹ 28روپے کا دیا جا رہا ہے۔  ایک ہفتہ میں بجلی کی قیمت دو دفعہ بڑھتی ہے، حکومت نے ملک کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا ہے، آئی ایم ایف کے مطالبات بغیر چوں چراں کے پورے کئے جا رہے ہیں، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی مزید بڑھے گی، یہ حکومت کے مکمل ناکام ہونے کی دلیل ہے۔ گندم، چینی اور کاٹن میں اضافہ سے ذخیرہ اندوزوں اور مافیاز کو فائدہ ہوا۔ عام آدمی کی کمر ٹوٹ گئی،گردشی قرضہ  3ٹریلین ارب  روپے  پہنچ گیا ہے، بجلی  کی قیمت 28 روپے  فی یونٹ ہوگئی ہے، اس کا حساب کون دے گا۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، حکومت کو نقصان کا احساس ہی نہیں ہے۔ وزیراعظم نے کہا تھا کہ میں قرضہ لینے کے بجائے خود کشی کروں گا،  حکومت نے اڑھائی سال میں 35000 ارب روپے تک قرضہ چڑھادیا،  مجھے اجازت دیں بل پھاڑ دوں، آج 28روپے یونٹ بجلی کا بل ہے بتایا جائے بل پھاڑ دوں یا نہ پھاڑ دوں۔ وزیراعظم نے کہا تھا کہ بجلی کی قیمت بڑھتی ہے تو اس کا مطلب ہے وزیراعظم چور ہے، بتایا جائے کہ وزیراعظم چور ہے یا نہیں، کاشتکار کی کمر آج ٹوٹ گئی ہے، حکومت اڑھائی سال کا حساب دے، یوٹیلیٹی سٹور غریبوں کو سستی اور معیاری اشیاء فراہم کرنے کیلئے بنایا گیا تھا، وہاں پر چیزیں غائب اور ناپید کر دی گئی ہیں، تعلیم مہنگی ہو گئی، الزامات سے ملک آگے نہیں جائے گا۔ وزیر توانائی عمر ایوب خان نے کہا کہ  ان حکومتوں نے بارودی سرنگیں لگائی ہیں، مہنگے منصوبے لگائے، اس دوران  اپوزیشن ارکان نے وزیر توانائی کو فلور دینے کے خلاف سپیکر ڈائس کے سامنے آ کر احتجاج کیا۔ سپیکر اسد قیصر اور شاہد خاقان عباسی کے درمیان  معاملہ تلخ کلامی ہوئی۔ سپیکر نے کہاکہ میں رولز کے تحت ایوان چلا رہا ہوں،  عمر ایوب نے کہا کہ انہوں نے پاکستان کے عوام کو گروی رکھا، ان سے پوچھا جائے۔ حکومت کے اقدامات کی بدولت بجلی ساڑھے چھ روپے فی یونٹ تک آ گیا ہے۔ حکومت نے صرف چار فیصد آئل فیول بجلی بنانے کیلئے استعمال کیا، یہ 30فیصد تک کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جلدی آئی ایم ایف کے پاس جانا چاہیے تھا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے پاکستان کو اس نہج پر پہنچایا، یہ لوگ اپنے گریبان میں جھانکیں۔  مسلم لیگ (ن)  کے راہنما  احسن اقبال نے کہا کہ  روایت یہ ہے کہ اپوزیشن کی تقاریر کے بعد وزیر جواب دے۔ سپیکر نے کہا کہ ہر ممبر کو تقریر کا حق ہے۔ اسد عمر نے کہا کہ اپوزیشن کا دوہرا معیار ہے، یہ ایوان میں کچھ بات کرتے ہیں اور سپیکر کے چیمبرز میں کچھ اور بات کرتے، مریم نواز نے بتایا کہ انڈے کلوکے حساب سے بکتے ہیں، یہ اس کا جواب دیں یہ کب ہوا ہے۔ اس موقع پر سپیکر اسد قیصر نے اجلاس (پیر) تک ملتوی کر دیا۔ اجلاس  میں سینیٹر مشاہد اللہ خان، نفیسہ شاہ کی بہن، نواب شیر وسیر کی بہن  و دیگرکے انتقال پر فاتحہ خوانی کی گئی۔ مشیر پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے سینٹ میں ریٹائرڈ ہونے والے ارکان سینٹ کی نشستوں پر انتخابات کیلئے قومی اسمبلی کا ایوان ایک دن کیلئے مختص کرنے کی تحریک پیش کی۔ قومی اسمبلی میں سٹیٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی سالانہ رپورٹ برائے مالی سال20۔2019 ،  مالیاتی و قرضہ پالیسی گوشوارہ جات اقلیتوں کی اشتمالی املاک کے تحفظ کا ترمیمی بل  اسلام آباد میں رفاہی اداروں کی رجسٹریشن اور سہولت کاری کو منضبط کرنے کے بل پر قائمہ کمیٹی کی رپورٹ پیش کی، مالیاتی و قرضہ پالیسی گوشوارہ جات برائے مالی سال 2021بھی ایوان میں پیش کئے۔سپیکر قومی اسمبلی نے گزشتہ اجلاس کے بعد جاری ہونے والے آرڈیننسز کو پیر تک ایوان میں پیش کرنے کی رولنگ جاری کردی۔

ای پیپر-دی نیشن