صدارتی ریفرنس، اچھی جمہوریت کیلئے سیاسی جماعتوں کا مضبوط ہونا ضروری: سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران سینیٹر رضا ربانی نے موقف اپنایا ہے کہ قابل شناخت بیلٹ پیپرز آرٹیکل 226 کی خلاف ورزی ہونگے، الیکشن کمیشن پر کوئی الزام نہیں لگانا چاہتا، قابل شناخت بیلٹ پیپرز ڈیپ سٹیٹ کی پہنچ میں ہوگا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ کیا تھیلوں میں بند بیلٹ پیپرز تک رسائی ہوتی ہے؟ رضا ربانی نے کہا کہ ڈیپ سٹیٹ کی رسائی اب ملک سے بھی باہر ہوگئی ہے۔ ڈیپ سٹیٹ ارکان سینٹ اور اسمبلی کو بلیک میل کریگی۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ 1962کے آئین میں تو خواتین کی مخصوص نشستوں پر بھی خفیہ ووٹنگ ہوتی ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ 1962 کے آئین کی خفیہ ووٹنگ والی شق کی عدالت نے 1967 میں تشریح کی تھی۔ 1962کا آئین آئرلینڈ کے دستور سے مماثلت رکھتا ہے۔ وزیراعظم اور وزرائے اعلی کے الیکشن پر آرٹیکل 63-A کا اطلاق بھی ہوتا ہے۔ رضا ربانی نے کہا کہ سپیکر اور چیئرمین سینٹ کے الیکشن خفیہ ووٹنگ سے ہوتے ہیں۔ سپیکر اور چیرمین سینٹ کے عہدے سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوتے ہیں۔ آئین میں تو آرٹیکل 10 اے بھی ہے، شفاف ٹرائل ہوتا تو لاپتہ افراد کا مسئلہ نہ ہوتا عدالتوں کی کوشش کے باوجود لاپتہ افراد کا مسئلہ جوں کا توں ہے اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں آئین پر عمل نہیں ہوتا،کیا یہ آئین شکنی 1973 میں ہی شروع نہیں ہو گئی تھی؟۔ رضا ربانی نے کہاکہ کسی مخصوص دور کی بات نہیں کرنا چاہتا، کسی کو 10 سیٹیں ملنا تھی تو نہ ملی تو ہارس ٹریڈنگ نہیں ہوگی۔ جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ کم از کم تحقیقات تو ہونی چاہیے کہ ہارس ٹریڈنگ ہوئی یا نہیں ہوئی، آج تک ہارس ٹریڈنگ پر کوئی سزا ملی نہ نااہلی ہوئی، بادی النظر میں ہارس ٹریڈنگ کے شواہد پر ووٹ دیکھا جانا چاہیے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کسی کی بھی ویڈیو بنانا اتنا آسان کام نہیں ہے۔ جیت ہمیشہ انصاف کی ہوتی ہے، رضا ربانی کا کہنا تھا کہ انصاف ملنے تک رکن اسمبلی خودکشی کرچکا ہوگا، اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ الیکشن لڑنے والے کو مضبوط اعصاب کا مالک ہونا چاہیے۔ جسٹس عمرعطابندیال نے کہاکہ انتحابی اتحاد کبھی خفیہ نہیں ہوتے۔ جہاں کسی انفردای شخص سے اتحاد ہو وہاں خفیہ رکھا جاتا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن جس کی چھ نشستیں بنتی ہوں اسے دو ملیں تو نتیجہ کیا ہو گا۔ کیا کم نشستیں ملنے پر متناسب نمائندگی کے اصول کی خلاف ورزی نہیں ہو گی؟ رضاربانی کا کہنا تھا کہ سینٹ الیکشن ریاضی کا سوال نہیں سیاسی معاملہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جائزہ لیں گے۔ سیاسی اتحاد خفیہ نہیں رکھے جائیں۔ رضا ربانی کا کہنا تھاکہ بعض اوقات سیاسی اتحاد خفیہ بھی ہوتے ہیں۔ کسی بھی بات کو سیاق وسباق سے ہٹ کر نہیں دیکھا جاسکتا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ دنیا کی تاریخ اختلاف رائے کرنے والوں سے بھری پڑی ہے اختلاف رائے کرنے والے نتائج کی پرواہ نہیں کرتے۔ ڈکٹیٹر کے خلاف بھی لوگوں نے کھل کر اختلاف رائے کیااور آئین میں اختلاف رائے پر کوئی نااہلی نہیں ہوتی۔رضاربانی نے کہاکہ آئین کے تحت مجموعی طور پر بیس الیکشن ہوتے ہیں۔ سینٹ اور قومی اسمبلی کے انتحابات بھی آئین کے تحت ہوتے ہیں۔ جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ انفرادیت کو مضبوط کرنے والا نظام چلنا چاہیے۔ رضاربانی نے کہاکہ انہوں نے ساری زندگی سٹیٹس کو کی مخالفت کی۔ خفیہ رائے شماری کا حق بھی چھینا گیا تو ارکان اسمبلی ڈیپ سٹیٹ کے ہاتھوں مشکل میں ہوں گے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آئرلینڈ کی سپریم کورٹ نے کہا کہ ووٹ کاسٹ ہونے کے بعد ریاست کی ملکیت ہے۔ آئرش عدالت کے مطابق ریاست کاسٹ شدہ ووٹ کی مالک ہوتی ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے سوال اٹھا یا کہ مخصوص نشستوں پر الیکشن کیوں خفیہ نہیں ہوتا؟ جسٹس عمر عطابندیال نے سوال کیا کہ کیا ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والے نظام کو چلنے دیا جائے گا۔ جمہوریت میں انفرادی پسند ناپسند اکثریتی رائے پر حاوی نہیں ہوتیں۔ اچھی جمہوریت کے لیے سیاسی جماعتوں کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ آپ جمہوری آدمی اور جاگیردارانہ نظام کے مخالف ہیں۔