ہر پاکستانی ردالفساد کا سپاہی ، 23 مارچ کو پریڈ ہوگی: ڈی جی آئی ایس پی آر
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے عوام کی مدد سے دہشت گردی کو شکست دی ہے۔ دہشت گردی اور پرتشدد شدت پسندی کے خلاف انٹیلی جنس بنیادوں پر شروع کئے گئے آپریشن ردالفساد کے چار برس مکمل ہونے پر پریس بریفنگ کے دوران انہوں نے کہا کہ ردالفساد کا بنیادی محور عوام ہیں۔ جس وقت مسلح فورسز دہشت گردوں سے لڑ رہی ہوتی ہیں تو دہشت گردی اور عسکریت پسندی کو صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں اور معاشرے کی طاقت سے شکست دی جاسکتی ہے۔ اسی مناسبت سے ہر پاکستانی ناصرف اس آپریشن کا حصہ ہے بلکہ پوری قوم کی سوچ کے تحت ہر پاکستانی ردالفساد کا سپاہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 22 فروری 2017 کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں آپریشن ردالفسار شروع کیا گیا۔ اس آپریشن کی بنیادی اہمیت جو اسے دیگر تمام چیزوں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ آپریشن کسی مخصوص علاقے کیلئے نہیں بلکہ اس کا دائرہ کار پورے ملک پر محیط تھا۔ اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے دو پہلوئوں پر مبنی حکمت عملی کے تحت شروع کیا گیا۔ جس میں ایک پہلو انسداد دہشت گردی (کاؤنٹر ٹیررزم) کو دیکھتا تھا جبکہ دوسرا پہلو انسداد پرتشدد انتہاپسندی کو دیکھتا تھا۔ جہاں تک انسداد دہشت گردی والے پہلو کا تعلق ہے تو اس کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ طاقت کا استعمال صرف ریاست کی صوابدید ہے۔ اس کے ساتھ مؤثر بارڈر منیجمنٹ سسٹم کے ذریعے ویسٹرن زون کا مکمل استحکام اور ملک بھر میں دہشت گردوں کی حمایت کا خاتمہ شامل تھا۔ پرتشدد انتہا پسندی کے معاملہ میں یہ واضح ہے کہ ایک نظریے کا مقابلہ صرف اس سے برتر نظریے یا دلیل کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے۔ اسی تناظر میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد، قبائلی علاقوں کی قومی دھارے میں شمولیت، تعلیمی مدرسہ اور پولیس ریفارم میں حکومتی کاوشوں میں بھرپور معاونت کے ذریعے شدت پسندی کے عوامل پر قابو پانا شامل تھا۔ آپریشن کا تفصیلی جائزہ پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو بڑی حکمت عملی تھی تو اسے چار الفاظ میں بیان کرسکتا ہوں جو ’کلیئر، ہولڈ، بلٹ اینڈ ٹرانسفر‘ تھے۔ یہ وہ چار مراحل تھے جس کے تحت ہم نے یہ لڑائی لڑی۔ انہوں نے کہا کہ 2010 سے اگر 2017 تک دیکھیں تو کلیئر اور ہولڈ مرحلے کے تحت بڑے آپریشن کے بعد مختلف علاقوں کو دہشت گردوں سے صاف کرایا جاچکا تھا اور قبائلی علاقوں میں ریاست کی رٹ بحال ہورہی تھی۔ ردالفساد بلٹ اینڈ ٹرانفسر مرحلے کا آغاز ہے۔ کائنیٹک آپریشن کے ذریعے علاقہ صاف کرنے کے بعد سماجی و معاشی ترقی اور سول اداروں کی عملداری دائمی امن کی جانب درست اقدام ہے اور اب اس کا اعتراف دنیا بھی کر رہی ہے۔ آپریشن ردالفساد کے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ گزشتہ چار برسوں میں آپریشن ردالفساد کے تحت ملک بھر میں خفیہ اطلاعات پر 3 لاکھ 75 ہزار سے زائد آپریشن کیے گئے جس میں سی ٹی ڈی، آئی بی، آئی ایس آئی، ایم آئی، پولیس، ایف سی اور رینجرز نے بھرپور کردار ادا کیا۔ جس میں پنجاب میں 34 ہزار سے زائد، سندھ میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد، بلوچستان میں 80 ہزار سے زائد اور خیبرپی کے میں 92 ہزار سے زائد خفیہ بنیادوں پر آپریشن شامل ہیں۔ ان میں چند بڑے آئی بی او، جیسے کہ کراچی سٹاک ایکسچینج اور چینی قونصل خانہ پر ناکام حملے بھی شامل ہیں۔ ان کارروائیوں کی وجہ سے شہری دہشت گردی پر قابو پانے میں مدد ملی اور بہت سے دہشت گرد نیٹ ورکس کو ختم کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ آپریشن کے دوران 72 ہزار سے زائد غیرقانونی اسلحہ اور 50 لاکھ سے زائد گولہ بارود ملک بھر سے برآمد کیا گیا۔ اس کے علاوہ 2017 سے 2021 کے دوران ملک بھر میں دہشتگردی کے ساڑھے 18 سو واقعات رونما ہوئے۔ پاک افغان سرحد پر 1684 سرحد پر حملے کے واقعات ہوئے۔ ان تمام واقعات اور آپریشنز کے دوران 353 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا اور سینکڑوں کو گرفتار کیا گیا۔ چار برسوں میں سکیورٹی فورسز نے ملک بھر میں 37 ہزار 428 سے زائد پولیس کے جوانوں کو تربیت دی ہے۔ جبکہ اگلے 6 ماہ میں تقریباً 4 ہزار کو مزید تربیت دے کر قبائلی اضلاع میں پولیس فورس میں شامل کیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ فوجی عدالتوں میں 717 کیسز بھیجے گئے جس میں 344 کو سزائے موت دی گئی جس میں سے 58 کی سزا پر عملدرآمد ہوچکا۔ اس کے علاوہ 106 کو عمر قید اور 195 کو مختلف دورانیے کی قید کی سزا دی گئی ہے۔ پانچ ملزمان بری بھی ہوئے۔ 2017 سے اب تک 1200 سے زائد قوم پرست شدت پسندوں نے ہتھیار ڈالے۔ شدت پسند مواد پر پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کے بیانیے اور اس کی تشہیر کو ناکام بنایا گیا۔ وفاق المدارس اور علما کی باہمی مشاورت سے 1800 سے زائد مذہبی رہنماؤں نے پیغام پاکستان کے نام سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف یک زبان ہوکر ایک انتہائی مؤثر بیانیہ دیا۔ آپریشن ردالفساد کے تحت ملک دشمن ایجنسیوں کی پاکستان مخالف سازشوں کو بے نقاب کیا اور خاص طور پر دہشت گردوں کی معاونت اور تربیت کے حوالے سے ناقابل تردید ثبوت دنیا کے سامنے رکھے۔ ہم نے بطور قوم کرونا وائرس کا بھی دانشمندی سے مقابلہ کیا۔ افواج پاکستان کو جو چین کی پی ایل اے نے ویکسین دی تھی وہ بھی قومی ویکسین مہم میں فراہم کردی گئی ہیں۔ اسی دوران پاکستان کو فوڈ سکیورٹی کا چیلنج بھی لاحق ہوا، جو ٹڈی دل کی صورت میں تھا، جس میں جہاں کارروائی کی ضرورت تھی مسلح افواج نے کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک سال میں جب ہم ان قدرتی آفات سے نبردآزما تھے تب بھی آپریشن ردالفساد نہیں رکا اور تمام معاملات چلتے رہے۔ اس موقع پر انہوں نے میڈیا کے مثبت کردار کی بھی تعریف کی اور کہا کہ اس دوران میڈیا نے تمام قومی سلامتی سے متعلق تمام معاملات کو بہت متحرک طریقے سے کور کیا۔ سوال و جواب کی نشست کے دوران ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ردالفساد صرف ایک فوجی آپریشن نہیں تھا بلکہ اس کا دائرہ کار پورے ملک پر محیط تھا اورنیشنل ایکشن پلان پر پیش رفت بہت حد تک ہوچکی ہے اور کچھ شعبے ہیں ان پر کام ہونا ہے۔ اسی حوالے سے انہوں نے کہا کہ کراچی میں امن و امان کی صورتحال بہت بہتر ہے، کراچی کرائم انڈیکس میں آج 106 نمبر پر ہے، قبائلی اضلاع میں 31 بلین کی لاگت سے ترقیاتی کاموں کا آغاز ہوچکا، ٹیررزم سے ٹورزم تک کا سفر انتہائی دشوار ہے، کورونا وبا کے دوران دانشمندی سے چیلنج پر قابو پایا، نئے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں، نیشنل ایکشن پلان کے مکمل اہداف حاصل کریں گے۔ افغانستان کے بارے میں ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان کا امن افغانستان کے امن سے جڑا ہے، پاکستان نے افغان امن کیلئے بہت مثبت کردار ادا کیا، پوری دنیا افغان امن کیلئے پاکستان کے کردار کو سراہتی ہے، افغان امن عمل پاکستان کے لیے بہت اہم ہے لیکن اس عمل میں پاکستان کسی فریق کی حمایت نہیں کر رہا، پاکستان کی افغانستان میں امن ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ فوج نے اپنے حصے کا کام کر دیا ہے لیکن نیشنل ایکشن پلان کے حوالہ سے سویلیں حکومت کی جانب سے کیاپیشرفت ہے تو ان کا جواب تھا کہانہوں نے کہا کہ ادارے کی جانب سے جو کام کرنا تھا وہ ہوا ہے اور حکومت نے جو کام کرنا تھا وہ ہو رہا ہے اور جلد مکمل ہوجائے گا اور کام مثبت طرز میں ہورہا ہے اور مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔افغانستان کے امن عمل سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ سوال وزارت خارجہ کے دائرے میں آتا ہے اس لیے تفصیلی بات نہیں کروں گا لیکن وہاں کے اقدامات افغانوں نے خود کرنا ہے اور امریکی نئی انتظامیہ کے اقدامات سے متعلق مثبت ہیں کہ بہتری ہوگی۔میجر جنرل بابرافتخار نے کہا کہ مختلف آپریشنز کے دوران 450 فورسز کے اہلکار شہید ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا میں پراپیگنڈا کے حوالے سے مواد پھیلا ہوا ہے اور دہشت گردی کو ابھارنے والے مواد اور لوگوں کو روکنے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں اور جلد ہی کوئی قانون بھی آئے گا، حکومت بھی کام کر رہی ہے اور یہ مزید فعال ہوگا۔ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں پاکستان کی موجودگی سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ان کے جو نکات تھے ان پر اچھا خاصا کام ہوا ہے لیکن پاکستان میں پچھلے 3 سے 4 سال میں جو کام ہوا ہے اس کی توثیق ہر سطح پر ہوئی ہے اور اس حوالے سے ہم بہت مثبت ہیں۔میرعلی میں این جی اوز کے اراکین پر ہونے والے حملے پر انہوں نے کہا کہ ہم دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے بھرپور کارروائی کر رہے ہیں لیکن ہر واقعے کو دہشت گردی سے نہیں جوڑنا چاہیے بلکہ امن و امان کے مسائل بھی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں صرف واقعات پر مخصوص نہیں ہونا چاہیے بلکہ مجموعی حالات کو دیکھنا چاہیے، قبائلی علاقوں میں مکمل حالات سے متعلق وقت لگے گا۔ ایک سولا کے جواب میں انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صرف فوج اور پولیس نے قربانیاں نہیں دیں بلکہ عوام نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں اور اس کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ صحرائے تھر میں جاری فوجی مشقوں جدارلحدید کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ مشقیں نئے اقدامات کا جائزہ لینے کے لیے کی جاتی ہیں اور بہت کامیاب جارہی ہیں، تربیت اور اسلحے سے متعلق ہماری تیاری کے نتائج مثبت آرہے ہیں۔بھارتی میڈیا میں پاکستان مخالف پروگراموں سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ان کو نظر انداز نہیں کیا جاتا ہے لیکن ضروری نہیں ہر ایک کو جواب دیا جائے پھر ڈس انفو لیب نے انکشافات کیے جس نے ان کی ساکھ پر واضح سوالات کھڑے کر دیے ہیں اور جہاں ضروری ہو ہم جواب دیتے ہیں اور مستقبل قریب میں ہم اس طرح کے معاملات پر قابو پالیں گے۔چین سے فوج کو ملنے والی کووڈ-19 ویکسین پر بھی سوال کیا گیا اورانہوں نے کہا کہ میڈیا بھی فرنٹ لائن پر ہے اور کس کو دینا ہے یہ فیصلہ حکومت کو کرنا ہے اور سب کو دیا جائے گا، آئندہ آنے والی کھیپ میں فوج اورمیڈیا سب شامل ہوگا۔دہشت گردوں کی واپسی کے طریقہ کار پر انہوں نے کہا کہ ایسے لوگوں کو مختلف مراکز میں مختلف سائیکالوجیکل اور موٹیویشنل طرز پر کام کیا گیا اور اس کا مثبت جواب آیا اور انہیں ڈرائیونگ اور مختلف ہنر سکھا دیے گئے۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ گوادر کا کرکٹ سٹیڈیم دنیا کا خوب صورت ترین میدان ہے لیکن بین الاقوامی میچوں کے لیے الگ تقاضے ہوتے ہیں اور ہوسکے تو پاکستان سپرلیگ (پی ایس ایل) کا کوئی میچ رواں سیزن یا مستقبل میں کبھی منعقد کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ وزارت داخلہ میں بارڈر مینجمنٹ ڈویژن قائم کر دیا گیا۔ بیالیس فیصد علاقہ بارودی سرنگوں سے کلیئر کرا لیا گیا ہے۔ دہشت گردوں کے بیانیہ کو ناکام بنا دیا گیا ہے۔ سائبر ڈومین میں پاکستان کو ڈس ایڈوانٹیج ہے۔ سوشل میڈیا کو مکمل ریگولیٹ نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ نفرت انگیز مواد کی اشاعت کی روک تھام کیلئے حکومت قانون سازی کر رہی ہے۔ تمام مکاتب فکر کے علماء کرام نے کردار پر انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ علاوہ ازیں ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس بریفنگ کے دوران ایک صحافی کی جانب سے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ فوج میں بطور ادارہ تعیناتیاں اتنی کم مدتی نہیں ہوتی، ہر کوئی اپنی مدت پوری کرتا ہے اور عام طور پر فوج میں کسی ادارے کے سربراہ کے طور پر تعیناتی دو سال کے لیے کی جاتی ہے، میری گزارش ہوگی کہ فوج میں اعلیٰ تقرریوں پر قیاس آرائیاں مزید نہ کی جائیں۔ عسکری ترجمان نے بتایا ہے کہ اگلے ماہ بھرپور قومی جذبے کے ساتھ یوم پاکستان منایا جائے گا۔ پریڈ کا انعقاد ہوگا اور مسلح افواج اس میں شرکت کریں گی۔ جبکہ اس مرتبہ یوم پاکستان کا پیغام ہے ’ایک قوم ایک منزل‘۔ انہوں نے کہا کہ کہا کہ ہم نے بہت کچھ حاصل کرلیا ہے لیکن بہت کچھ حاصل کرنا باقی ہے اور وہ ہم ایک، اکٹھے رہ کر حاصل کرسکتے ہیں اور عوام کے تعاون سے ہر چیلنج پر قابو پائیں گے۔