آپریشن ردالفساد، یوسف رضا گیلانی کی رائے اور آفتاب شیر پاؤ کی خواہش!!!!!
آپریشن ردالفساد کے چار سال مکمل ہوئے ہیں اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ اس آپریشن کے دوران ہونے والی کارروائیوں کی وجہ سے پاکستان میں امن و امان کے حالات بہتر ہوئے ہیں، امن و امان کے دشمنوں کا قلع قمع کیا گیا ہے، پاکستان میں موجود دشمنوں کے ایجنٹوں کی نشاندہی کی گئی انہیں ٹھکانے لگایا گیا ہے۔ ملک میں معاشی، ثقافتی، تجارتی اور بین الاقوامی کھیلوں کی سرگرمیاں امن و امان سے جڑی ہیں۔ ان چار برسوں میں اس حوالے سے بہتری ضرور آئی ہے۔ کاش کہ اس دوران سیاسی حکومتیں بھی اسی عزم جوش و جذبے اور حکمت عملی کے ساتھ فیصلے کرتیں، "رد کرپشن" مہم کا آغاز کیا جاتا، وطن سے محبت اور جھوٹ سے انکار کی مہم کا آغاز کیا جاتا تو کوئی شک نہیں تھا کہ پاکستان تیزی سے ترقی کرتا، قرضے کم ہوتے، عام آدمی کا طرز زندگی بہتر ہوتا لیکن ایسا نہیں ہو سکا، بدقسمتی سے سیاست دان چار سال پہلے بھی ذاتی لڑائیوں میں مصروف تھے اور آج بھی ذاتی مفادات، الزامات اور ہر وقت نفرت کی سیاست اور ایوانِ اقتدار میں گھسنے کے لیے دست و گریباں ہیں۔ کراچی میں دیکھیں کیا ہو رہا ہے، پنجاب میں ملک کے بڑے سیاستدان صبح دوپہر شام اور رات گئے صرف اور صرف الزامات، نفرت اور جھوٹ کو عام کر رہے ہیں۔ ایک ایسا ملک جو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں شامل ہونے کے بعد اپنے امن و امان کی بحالی کے لیے عالمی دہشت گردوں کے خلاف نبرد آزما ہو اس کا حکمران طبقہ ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے بجائے ہر وقت لڑائی جھگڑوں میں مصروف نظر آتا ہے۔صبح نو بجے مریم اورنگزیب کا خطاب ہوتا ہے، دس بجے اس کے جواب میں فواد چودھری آتے ہیں، گیارہ بجے سندھ سے پیپلز پارٹی کے مرتضی وہاب آتے ہیں بارہ بجے شبلی فراز کا وقت ہو جاتا ہے اور پھر باری باری ہر گھنٹے کے وقفے سے ملک کے مختلف حصوں سے حکومت، اس کے اتحادی اور حزب اختلاف میں شامل جماعتوں کے نمایاں افراد ایک ہی انداز میں برا بھلا کہنے کے لیے موجود ہوتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ سب ایک دوسرے کو ناکام قرار دینے کی مہم پر ہیں۔ سب کو ملک کی کمزور معیشت کا دکھ ہے اور سب یہ چاہتے ہیں کہ معیشت ٹھیک کریں لیکن معیشت کی بہتری کے لیے کوئی بھی ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دینا چاہتا، سب یہی چاہتے ہیں کہ صرف وہ معیشت ٹھیک کریں۔ اب ان سب سے پوچھا جائے کہ جب آپ ایک دن میں سولہ گھنٹے ملک کے نظام کو الجھائے رکھیں گے، ایک دوسرے پر عدم اعتماد کرتے رہیں گے تو دنیا میں پاکستان کا کیا پیغام جائے گا۔ کیا ہمارے سیاستدان دنیا کو ملک کا وہ چہرہ دکھانے میں کامیاب ہوئے ہیں جسے دیکھ کر کوئی یہاں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کرے گا۔ جیسے امن و امان کی صورتحال کا بہتر ہونا ضروری ہے ویسے ہی سرمایہ کاری کے لیے حکومتی و سیاسی سطح پر بھی استحکام ضروری ہے۔ اگر چار سال تک ایک ہی جوش وخروش، جذبے کے ساتھ ردالفسار جاری رہ سکتا ہے تو سیاست دان ملک و قوم کے بہتر مستقبل کے لیے اتحاد کے ساتھ آگے کیوں نہیں بڑھ سکتے، کیوں برداشت نہیں کر سکتے، کیوں تحمل مزاجی سے مل جل کر ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ کہیں سانپ چھوڑنے کے الزامات ہیں تو کہیں شخصی جمہوریت کے لیے بے گناہ اور معصوم شہریوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کہتے ہیں کہ "22 فروری 2017 کو شروع کیے جانے والے اس آپریشن کا مقصد دہشتگردوں کو مکمل طور پر غیر مؤثر کرتے ہوئے عوام کا ریاست پر اعتماد بحال کرنا تھا۔ آپریشن کے دوران اٹھہتر سے زائد دہشتگرد تنظیموں کے خلاف کارروائیاں کرتے ہوئے دہشتگردوں، سہولت کاروں اور ان کے معاونین کے خلاف انٹیلی جنس بنیادوں پر ایکشن کر کے دہشت گردوں کے بڑے بڑے نیٹ ورک ختم کرتے ہوئے دہشت گردوں کو قومی دھارے میں شامل کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر پاکستان مخالف پروپیگنڈے کے حوالے سے ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ پاکستان کے خلاف چلنے والے پروپیگنڈے کا بڑی حد تک خاتمہ کر چکے اور اس پر مزید کام بھی ہو رہا ہے"۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے افغانستان کے امن پر بھی بات کی ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ پاکستان نے غیر جانبدار رہتے ہوئے افغانستان میں معمولات زندگی کی بحالی میں نہایت مثبت کردار ادا کیا ہے۔ اس حوالے سے ترقیاتی منصوبوں کو دیکھا جائے تو پاکستان کا کردار واضح ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی خدمات اور لگن کو دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہاں جانبداری سے کام لیا جا رہا ہے بلکہ پاکستان بے پناہ مسائل اور بھارتی مداخلت کے باوجود افغانستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان نے گذشتہ چار دہائیوں میں لگ بھگ پچپن لاکھ افغان مہاجرین کی کھلے دل سے میزبانی بھی کی ہے۔ افغانی پاسپورٹ رکھنے والوں کے لیے پاکستان کسی بھی قسم کی ویزا فیس کے بغیر پوری دنیا سے ویزا جاری کرتا ہے۔ ترقیاتی منصوبوں میں اسپتالوں کی تعمیر ، ہاسٹل کی عمارت ، افغان طلباء کو وظائف کی فراہمی،طورخم اور جلال آباد کے درمیان سڑک کی اپ گریڈیشن جیسے اہم منصوبے شامل ہیں۔حال ہی میں پشاور، جلال آباد ریل لنک (فزیبلٹی اسٹڈی) ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن سمیت افغانستان کے اہم منصوبوں کے لئے پانچ سو انچاس ملین کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ پاکستان نے سینکڑوں بسیں ، ٹرک ، ارتھ موونگ اور تعمیراتی مشینری افغان بھائیوں کو عطیہ کر کے ٹرانسپورٹ کے شعبے کو بہتر بنانے کے لیے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک بڑا تجارتی معاہدہ حتمی مراحل میں ہے۔ اس معاہدے کی رو سے وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ رابطے بڑھانے کے ساتھ ساتھ علاقائی تجارت کو مزید بہتر بنانے پر توجہ دی گئی ہے۔ یہ اعدادوشمار پاکستان کے افغانستان کی طرف مثبت، تعمیری اور برادرانہ تعلقات کی اعلیٰ مثال ہیں۔
سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کہتے ہیں کہ بظاہر نظر آ رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مکمل طور پر نیوٹرل ہے۔ یوسف رضا گیلانی پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے امیدوار ہیں اور پاکستان ڈیمو کریٹک کا بیانیہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے کیونکہ مسلم لیگ نون اور مولانا فضل الرحمٰن اپنی ناکامی کو چھپانے اور اقتدار کی ہوس میں جس منفی انداز میں دفاعی اداروں کو سیاست میں ملوث کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں یہ کوئی قومی خدمت نہیں ہے۔ سینیٹ انتخابات میں بھی یہ دونوں اسی منفی سیاست کو اگے بڑھا کر عوامی سطح پر نفرت پھیلانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کی جماعت پی ڈی ایم کا حصہ ہے اور وہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے امیدوار ہیں اس حیثیت میں ان کے بیان کو بھی اتنی ہی سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے، یوسف رضا گیلانی صرف سینیٹ انتخابات میں امیدوار ہی نہیں ہیں بلکہ وہ ملک کے سابق وزیراعظم بھی ہیں۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو سیاسی میدان میں اپنی ناکامی کو چھپانے کے وزن ریاست کے کسی بھی ادارے پر ڈالنے کے بجائے اپنے ماضی پر نظر ڈالیں اور اپنا احتساب خود کریں۔
قومی وطن پارٹی کے مرکزی چیئرمین آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے کہتے ہیں کہ ملک میں بہت جلد نئے اور آزادانہ انتخابات ہوں گے۔ خان صاحب بالکل ٹھیک کہتے ہیں میں بھی اتفاق کرتا ہوں کہ ملک میں بہت جلد نئے انتخابات ہوں گے۔ شیر پاؤ تجربہ کار سیاستدان ہیں انہوں نے واقعی گہری بات کی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ضمنی انتخابات تو کہیں بھی کسی بھی وقت ہو سکتے ہیں، بہت جلد بھی ہو سکتے اور انتخابات تو ہمیشہ سے ہی آزاد ہیں۔ یہ صرف ہارنے والے کے لیے آزاد نہیں ہوتے جیتنے والے تو ہمیشہ اس کی شفافیت کی قسمیں اٹھاتے رہتے ہیں۔ شیر پاؤ صاحب بھی انہی میں شامل ہیں جو جیت جائیں تو انتخابات شفاف نظر آتے ہیں ہارنے کی صورت میں صرف دھاندلی ہوتی ہے۔ انتخابات تو وقت پر ہی ہونے چاہئیں یہی جمہوریت کا تقاضا ہے۔ نظام جیسا بھی ہے اس میں تسلسل تو ہونا چاہیے گوکہ اس جمہوریت نے ملک کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے اس کے باوجود بھی کم از کم چلتا تو رہے تاکہ لوگوں کو خود اندازہ ہو کہ کیا غلط ہے کیا درست ہے۔ دعا ہے کہ قوم کے مسائل حل ہوں اور عام آدمی کی زندگی میں بہتری آئے۔