سینٹ الیکشن … متناسب نمائندگی؟
سینٹ کا الیکشن کرانے کیلئے الیکشن کمیشن نے تمام انتظامات مکمل کرلیے ہیں۔ پنجاب سے تحریک انصاف کے علی ظفر اور مسلم لیگ (ن) کے اعظم نذیر تارڑ ٹیکنو کریٹ سیٹ پر بلامقابلہ کامیاب ہونے کے ساتھ خواتین کی سیٹ سے ڈاکٹرزرقاء کا تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کی سعدیہ عباسی سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی بہن بھی بلامقابلہ کامیابی حاصل کر چکی ہیں۔ جبکہ پنجاب سے جن افراد کو تحریک انصاف کی طرف سے سینٹ کیلئے ٹکٹ دینا ضروری تھا کیونکہ وہ پرانے کارکنان تھے ان میں نور خان ، محمد خان مدنی، جمشید اقبال چیمہ، حامد خان ایڈوویکٹ اور ہمایوں اختر خان کو نظر انداز کردیا گیا۔ اس طرح بلوچستان سے روبینہ شاہ جن کا شمار بلوچستان کی نامور سیاسی خواتین میں ہوتا ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی نے اُنکی خدمات کو نظر انداز کر کے شانیہ خان اور خیبر پختونخواہ کی رہائشی ستارہ ایاز کو ٹکٹوں سے نوازا ہے۔ شانیہ خان نے عوامی پارٹی کیلئے نہ کوئی ورک کیا ہے اور نہ ہی نظر آتی ہیں۔ اس طرح ستارہ ایاز بلوچستان کے حوالے سے کوئی گرانٹ نہیں لی ہے۔ اس طرح بلوچستان میں جس عبدالقادر شخص کو پی ٹی آئی نے ٹکٹ دیکر واپس لیا تھا وہ پہلے بلوچستان عوامی پارٹی کا سینٹر بن رہا تھا لیکن نہ جانے کن وجوہات پر وہ آزاد الیکشن لڑ رہا ہے۔ اس طرح پاکستان کے چاروں صوبوں میں پارٹی ورکروں کی بجائے غیر سیاسی اور غیر فعال لوگوں کو تمام جماعتوں نے ٹکٹ دئیے ہیںجبکہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ جس پارٹی کے ممبران زیادہ سینٹر بن جائینگے تو لازم ہے کہ یہاں کوئی گڑ بڑ ہوتی ہے۔ جبکہ سپریم کورٹ نے واضح کیا ہے کہ تمام پارٹیوں کو متناسب نمائندگی کی طرح سیٹ مل جائیں ورنہ ایسا نہ ہوا تو الیکشن کمیشن ذمہ دار ہوگا کہ ایسا کیوں ہوا۔ مسلم لیگ (ن) شاید زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کیلئے کوئی ہلہ گلہ نہیں کر رہی ہے جبکہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف اپنے اپنے گھوڑے دوڑا رہے ہیں۔ جہانگیر ترین اپنا طیارہ لے کر اڑان بھر چکے ہیں اور سینٹ میں تحریک انصاف کے خاص کر وزیر خزانہ حفیظ شیخ کو کامیاب کرانے کیلئے اپنا جہاز اور پٹرول پھونکنے کے ساتھ ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کو منا رہے ہیں اور انکی ہر خواہش کا احترام کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے روٹھے ہوئے لوگ اور اُنکے گروپ کے لوگ جو کہ جہانگیر ترین کے ساتھ عمران خان کی ناراضگی کے ساتھ اپنی ناراضگی جوڑے ہوئے تھے اُن میں فیصل آباد کے راجہ ریاض احمد صف اول میں شامل تھے۔ وہ اب طیارے میں بیٹھ چکے ہیں۔ اور جہاں جہاں ناراض ارکان موجود ہیں اُنکے گھروں میں طیارے کے ذریعے ’’چھاپے‘‘ مارے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی سیاسی حلقوں میں ہوام گرم ہے کہ جہانگیر ترین اوپر سے تحریک انصاف کیلئے کام کررہے ہیں اندر اپنی رشتہ داری یوسف رضا گیلانی کے ساتھ نبھا رہے ہیں۔ حکومت کے پاس قومی اسمبلی کے 180 ووٹ ہیں جبکہ پی ڈی ایم 158 ووٹ رکھتی ہے۔ گیارہ ووٹ پی ڈی ایم کو چاہیے تو اسلام آباد پر پی ڈیم ایم قابض ہوسکتی ہے یہ کوئی ناممکن بات ہے۔ میرے پچھلے کالم میں متناسب نمائندگی کا بڑی شد و مد سے ذکر تھا۔ اس طرح نوائے وقت متناسب نمائندگی کے حوالے سے سرخیل رہا اور اب ہمارا مشورہ ہے کہ حکومت دوسری تمام ترامیم کو چھوڑ کرمتناسب نمائندگی طریقہ رائج کرے۔ یہ نظام آسان اور سستا نظام ہے۔ جو متعدد ممالک میں آزمایا جا چکا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اگر سینٹ کے الیکشن کیلئے سیکرٹ بیلٹ کی بجائے اوپن بیلٹ کی بات پر متفق ہے اور وہ اب منحرف ہوگئے ہیں۔ تحریک انصاف متناسب نمائندگی کا بل ایوان میں لائے۔ پھر دیکھتے ہیں اس کی کون مخالفت کرتا ہے اور پارٹیوں کو بندر بانٹ نوٹوں کا شور اور ہارس ٹریڈنگ کا خاتمہ ہوگا اور ملک سکون سے نئی پراہ پر چل نکلے گا۔ اور دھاندلی کا شور بھی مناسب نمائندگی کی وجہ سے دب جائے گا اور ملک ترقی کرے گا۔