ڈسکے میں بکسا ، بکسے میں ڈسکہ
عمران خان اصولی سیاست کے حامی رہے ہیں۔ وہ جمہوریت کا پاکستان میں اسی طرح نفاذ چاہتے ہیں جس طرح یہ ان ممالک میں بروئے عمل ہے جن ممالک سے ہم نے اسے لیا ہے ۔ عمران خان کی یہ اچھی خواہش ہے۔ وہ سیاست میں بھی کرکٹ کی طرح فائول پلے کے قائل نہیں۔ وہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے طاقتور کپتان رہے۔ اتنے طاقتور کہ سلیکٹر بھی خود ہی تھے اور پالیسی ساز بھی۔ نیوٹرل ایمپائرنگ کا سلسلہ بھی انہی کے ایما اور کوششوں سے شروع ہوا جس سے کرکٹ میں میزبان ممالک کا دھونس اور دھاندلی سے جیتنے کا سلسلہ موقوف ہو گیا۔ اوپن اور خفیہ بیلٹ کی بحث اور کوشش اسی حوالے سے جاری ہے۔ وزیراعظم جس طرح کی پاکستان میں جمہوریت لانے کے متمنی ہیں جمہوریت کا دراصل خاصا یہی ہے مگر اس کے لیے جو ماحول اور معاشرتی رویے ہونے چاہئیں کیا وہ ہمارے ہاں ہیں؟۔ اس کا جواب نفی بلکہ قطعی نفی میں ہے۔ البتہ یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ گذشتہ تیس سال میں سیاست میں در آنے والی خرافات کا خاتمہ آئندہ 30سال میں جمہوریت کو اس کی اصل صورت میں رائج کرنے کی خواہش رکھنے والوں کو موقع ملنے کی صورت میں ہو سکتا ہے مگر یہ خیال است و محال است ہی ہے۔ کل پرسوں ضمنی الیکشن ہوئے ہیں۔ جس میں تحریک انصاف کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جس پارٹی نے سیٹ چھوڑی وہ اسی کو ملنے کا ایک تصور موجود ہے مگر یہ ضروری نہیں ہے۔ حکومت کی خالی ہونے والی سیٹ پر حکومتی امیدوار ہی کامیاب ہوتا ہے ایسا نہ ہو تو حکومت کے لیے سبکی کا باعث اور پالیسیوں پر نظرثانی کا تقاضا تو بنتا ہے۔ تحریک انصاف کو سندھ سے تمام سیٹوں پر ناکامی ہوئی گو کہ وہ دوسری پارٹیوں کی خالی ہوئی تھیں۔ پنجاب میں بھی مسلم لیگ نے اپنی جیتی ہوئی سیٹیں جیت لیں مگر نوشہرہ میں جہاں مرکزی اور کے پی کے حکومت بروئے عمل ہے اور پوری طاقت سے ہے وہاں پر تحریک انصاف کا ہار جانا سوالات کے اژدہام لئے ہوئے ہے۔ میرے حلقہ ڈسکہ میں تحریک انصاف آسانی سے جیت سکتی تھی۔ ظاہرے شاہ علاقے کی معروف شخصیت تھے۔ان کے انتقال کی وجہ سے یہ سیٹ خالی ہوئی۔ 2018ء کے الیکشن میں ظاہرے شاہ نے ایک لاکھ ایک ہزار ووٹ حاصل کیے۔ علی اسجد ملہی کو پی ٹی آئی نے ٹکٹ دیا انہیں 61ہزار جبکہ ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے والے عثمان کو 57ہزار ووٹ پڑے تھے۔ اب عثمان تحریک انصاف کے امیدوار امجد علی اسجد کی حمایت کر رہے تھے۔ مگر الیکشن کی لیٹ نائٹ حکومت کی طرف سے انتخابی عملے کو جبراً اغوا کر لیا گیا(یاد رہے اس حلقہ میں پنجاب نیشنل پارٹی نے مسلم لیگ ن کے ساتھ انتخابی اتحاد کرکے مقابلے کو دلچسپ بنا دیا تھا) تبدیلی کی بات کریں تو کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔
حکومت کے اب سوچنے کا کام یہ بھی ہے کہ کیا اس کی ہار کی وجہ ٹکٹوں کا غلط اجرا بنا۔یا پالیسیاں ہیں جن کی وجہ سے مہنگائی ، بے روزگاری عوام کو مایوس کیے ہوئے تھے یا پھر پی ڈی ایم کے بیانیے سے لوگ متاثر ہو کر حکومت کی مخالفت پر کمربستہ تھے۔ عمران خان کو اب کیاکامیابی کے لیے وہی کچھ کرنا چاہیے جو ہمارے معاشرے کی مروجہ اور پختہ مگر نفرت انگیزروایات کا تقاضا ہے۔ عمران خان انہی روایات کے خاتمے کا مشن لے کر آئے تھے مگر اب شاید اس حوالے سے بھی یوٹرن لے رہے ہیں۔ ان خبروں کی تردید نہیں ہو رہی کہ سینیٹ الیکشن میں اپوزیشن کو اسی کی زبان میں جواب دینے کے لیے عمران خان کے سابق دوست جو سکینڈلز میں ماخوذ ہیں اور ان سے کلیئر ہوئے بغیر ان کی حمایت میں متحرک ہو چکے ہیں۔قارئین! الیکشن کے دوران دھاندلی کے الزامات لگنا پاکستان سے لے کر امریکہ تک یہ کوئی عجب بات نہیں ۔ جب جارج ڈبلیو بش نے الگور کیخلاف الیکشن جیتا تو اسے امریکن تاریخ کا سب سے زیادہ دھاندلی والا الیکشن قرار دیا گیا اور اب صدر جوبائیڈن نے سابق صدر ٹرمپ کے خلاف جو الیکشن جیتا اس الیکشن میں امریکن قوم کو دو واضح حصوں میں تقسیم کر دیا ہے ۔یعنی وہ نقصان جو امریکن اقوام کے دشمن اسلحہ اور طاقت کی بنیاد پر امریکہ کو نہ پہنچا سکے وہ ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار نے جیت کرامریکی عوام کو دو واضح حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔قارئین!کون نہیں جانتا کہ 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے کروائے ہوئے الیکشن کو متنازعہ قرار دیا گیا اور پھر اس کے بعد کوئی الیکشن بھی انسانی حقوق کے تقاضوں کے مطابق پاکستان میں نہ کروایا جا سکا ہے۔اور انہیں الیکشن کے دوران چھانگا مانگا اور گلگت سوات کے گیسٹ ہائوسز کی کہانیاں منظرعام پر آئیں ۔خود شریف برادران کے 35سالہ دوراقتدار میں اور خاص طور پر 2013ء کے الیکشن میں جو دھاندلی کے نئے شاہکار تلاش کیے گئے اور اس کے نتیجے میں پاکستان کی سالمیت کو جس طرح کھوکھلا کیا گیا ہماری قوم نے اس سے بھی سبق نہ سیکھا اور صدافسوس کہ کل تک دھاندلی کے خلاف دھرنے دینے والے عمران خان اور اس کی ٹیم سے یہ توقع نہ تھی کہ وہ NA-75ڈسکہ کے الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ کی سفارش پر کمزور امیدوار کو ٹکٹ جاری کرکے اپنی شکست کا تماشابناتے ۔گذشتہ روز ہونے والے ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں بکساڈسکہ کو ڈھونڈتا رہا اور ڈسکہ بکسا کو ڈھونڈتا رہا۔الیکشن کی رات غائب ہونیوالے تقریباً بیس آر اوز کے بیانات پڑھ کر انسان حیرت سے دنگ رہ جاتا ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی ایک مہذب اور تہذیب یافتہ ملک میں اس قسم کے تماشے رونما ہو سکتے ہیں۔ میں یہ بھی یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وزیراعظم عمران خان کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں یا انہیں کم از کم اعتماد میں لے یہ سب کچھ نہیں رچایا گیا۔مگر ملک کے چیف ایگزیکٹو ہونے کے ناطے یہ عمران خان کی ہی ذمہ داری تھی کہ ان ضمنی الیکشن کو شفاف طریقے سے ہونے دیتے اور اپنی کارکردگی کی بنیاد پر لوگوں سے بااخلاق طریقے سے ووٹ مانگتے۔آج بھی پاکستان کی سلامتی کی خاطر خدارا آئندہ ایک دو الیکشن دھاندلی کے بغیر بھی کروا کے دیکھ لیں شاید ملک کے لیے اس سے اچھے نتائج برآمد ہوں؟