بھارت دہشتگردوں کو اسلحہ، پیسے اور ٹیکنالوجی دے رہا: ڈی جی آئی ایس پی آر
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ افغانستان سے پاکستان میں شدت پسندوں کی مدد کی جا رہی ہے۔ بھارت ان دہشتگرد تنظیموں کو اسلحہ، پیسے اور نئی ٹیکنالوجی سے بھی نواز رہا ہے۔ جس کا مقصد دہشت گردوں کی صلاحیت کو بڑھانا ہے۔ گزشتہ روز غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے یہ انکشافات کئے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ بات بعید ازقیاس نہیں ہے کہ یہ سب کارروائی افغان انٹیلی جنس کے علم میں ہے۔ میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ آرمی چیف نے ایک حالیہ بیان میں ہمسایہ ممالک کی جانب امن کا ہاتھ بڑھانے کی بات کی تھی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پاکستان مشرقی سرحد پر درپیش خطرات سے آگاہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی تمام فوجی نقل و حرکت ہماری نظر میں ہے۔ پاکستان ان خطرات سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان ایران سرحد پر باڑ لگانے کا معاملہ باہمی طور پر حل کر لیا گیا ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایران کا دورہ کیا تھا اور سرحدی باڑ پر ایران کے تحفظات دور کر دیئے تھے۔ وزیرستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اب دہشت گردوں کے منظم اور محفوظ ٹھکانے نہیں ہیں لیکن چند عناصر موجود ہیں جو دوبارہ فعال ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہیں بیرونی ایجنسیوں کی جانب سے اسلحے کی فراہمی اور مالی معاونت کی جا رہی ہے۔ مسنگ پرسنز کے بارے میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسنگ پرسنز کمشن نے بہت پیش رفت کی ہے۔ کمشن کے پاس چھ ہزار سے زائد لاپتہ افراد کے کیس تھے جن میں سے چار ہزار حل کیے جا چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسنگ پرسنز کا معاملہ بہت جلد حل ہو جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ گذشتہ ماہ بلوچستان کے علاقے کیچ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے گیارہ کان کنوں کے قتل سے تعلق کی بنا پر چند افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ یہ بہت اہم گرفتاریاں ہیں جس کی تفصیلات ابھی نہیں بتائی جا سکتیں۔ شمالی وزیرستان میں دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سکیورٹی فورسز نے باقی ماندہ شدت پسندوں کے خلاف بہت جارحانہ کارروائیاں شروع کی ہیں اور تازہ تشدد اسی کا ردعمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ دنوں شمالی وزیرستان میں خواتین پر حملہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ اب اس علاقے میں کوئی منظم گروہ باقی نہیں رہ گیا اور چھوٹے موٹے شدت پسند مختلف ناموں سے کارروائیاں کر رہے ہیں جن کا جلد ہی مکمل خاتمہ کر دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت کی پالیسی ہمسایوں کی جانب امن کا ہاتھ بڑھانا ہے۔ افغانستان کے حوالے سے پوچھے متعدد سوالات کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نئی امریکی انتظامیہ افغان طالبان مذاکرات کے معاملے پہ غور کر رہی ہے اور پاکستان کا اس معاملے پر یہی موقف ہے کہ افغانستان میں امن کے قیام کے لیے مذاکرات جاری رہنے چاہئیں اور اس میں تعطل بالکل نہیں آنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان افغان امن مذاکرات کا حامی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں عسکری ترجمان نے جواب دیا کہ پاکستان کے سعودی عرب سے فوجی سطح پر اچھے تعلقات ہیں۔ سابق آرمی چیف راحیل شریف کے حوالے سے سوال پر انہوں نے بتایا کہ وہ ابھی سعودی عرب میں ہی ہیں اور اپنی عہدے پر موجود ہیں۔