• news

طالبان نے القاعدہ سے ناطہ نہیں توڑا حملوں کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتے ہیں : امریکہ

واشنگٹن (این این آئی )امریکہ کی مرکزی کمان کے سربراہ جنرل کینتھ میکنزی نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ اپنے انتخاب کے مطابق کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ پر حملوں کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ امریکہ کی پہنچ بہت دور دور تک ہے۔عرب ٹی وی کے مطابق جنرل میکنزی بیروت انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام ایک ویبی نار میں تقریر کررہے تھے،انھوں نے کہا کہ اس پہنچ کا عملی اظہار2020  میں کیا گیا تھا جب امریکہ کے بغداد میں ایک ڈرون حملے میں ایران کی القدس فورس کے کمانڈر میجرجنرل قاسم سلیمانی اور ایران کی حمایت یافتہ عراقی ملیشیا کے ڈپٹی کمانڈر ابومہدی المہندس ہلاک ہوگئے تھے۔انھوں نے افغانستان ، طالبان سے امن عمل اور مشرقِ اوسط سے متعلق دوسرے موضوعات کے بارے میں اظہارخیال کیا ہے۔انھوں نے کہاکہ طالبان کے بارے میں یہ جائز شکوک پائے جارہے ہیں کہ وہ گذشتہ سال دوحہ میں امریکہ کے ساتھ طے شدہ امن معاہدے میں کیے گئے وعدوں کی پاسداری نہیں کررہے ہیں۔جنرل میکنزی کا کہنا تھا کہ طالبان امریکہ کی قیادت میں اتحادیوں پر حملوں سے تو باز رہے ہیں لیکن اس کے باوجود تشویش کے بعض پہلو موجود ہیں۔اس وقت جب ہم یہاں گفتگو کررہے ہیں تو طالبان کے عزائم سے متعلق بعض جائز شکوک پائے جاتے ہیں۔ان میں ایک تو یہ ہے کہ طالبان کی القاعدہ سے ناتا توڑنے کی کوئی علامتیں ظاہر نہیں ہوئی ہیں۔انھوں نے کہا کہ افغانستان میں دونوں طرف سے تشدد کا سلسلہ جاری ہے لیکن میرے تجزیے کے مطابق طالبان اس کے زیادہ ذمے دار ہیں۔ان سے جب افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے بتایا کہ اس وقت افغانستان میں ڈھائی ہزار امریکی فوجی موجود ہیں۔اس کے علاوہ پانچ ہزار کے لگ بھگ نیٹو فوجی بھی موجود ہیں۔جنرل میکنزی نے کہا کہ امریکہ نے عراق میں ایران کے ساتھ ریاست در ریاست سد جارحیت کا مقصد حاصل کر لیا ہے لیکن اس نے جارحیت کا توڑ کرنے کے لیے اقدامات جاری رکھے ہوئے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ہم اب بھی دیکھتے ہیں کہ ایران کی گماشتہ تنظیمیں عراق میں ہمارے اتحادیوں اور شراکت داروں پر حملے کرنا چاہتی ہیں اور سعودی عرب پر مسلسل حملے کیے جارہے ہیں مگر اس کے باوجودایران یہ یقین کرتا ہے کہ اس طرح کے حملوں کو ایران سے منسوب نہیں کیا جاسکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ عراقی حکومت بدستور امریکہ کی فوج کو ملک میں برقرار رکھنا چاہتی ہے،اس سے ایران کو مایوسی ہورہی ہے۔عراق کو اس وقت معاشی اور دوسرے مسائل کا سامنا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن