• news
  • image

پیر سید طالب حسین گردیزیؒ

سید احسان احمد گیلانی
مسلم معاشروں میں تربیت اور تعلیم کے لیے صوفیا کرام اور علماء حق نے ہمیشہ ہی اپنی بہترین صلاحیتوں کو صرف کیا ہے اور اس خدمت عظیم کے لیے اُنہوں نے اپنی دنیاوی حیثیت کو پس پشت ڈالا اور اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے سرد و گرم حالات کی پروا نہ کی ۔ ان صالحین نے پوری دیانت اور اخلاق سے دینی پیغام اورتربیت کے نظام کو اگلی نسلوں تک منتقل کیا۔ روایتی معاشرت میں نہایت ہی حکیمانہ انداز سے دینی اقدار کو متعارف کروانے والے یہ پاکبازان ِ اُمت عوام و خواص کے لیے دائی بن کر اصلاح معاشرہ کا فریضہ سر انجام دیتے رہے ۔ حکومت اور سلطنت تو اپنے مفادات اور طولِ اقتدار کی تگ و دو میں مصروف عمل رہتی ہے اور اپنی نیک نامی کے لیے دین دار طبقے کی بظاہر سر پرستی بھی کرتی ہے لیکن جب تک بلند مقاصد کے حصول میں اخلاص نیت نہ ہو اُس وقت تک کوئی بھی معاشرہ حقیقی اسلامی معاشرہ نہیں بن سکتا ۔ برصغیر پاک ہند میں اہلِ حق علماء اور صوفیا ِ کرام نے سادہ لوح عوام میں دین کی محبت اتارنے کے لیے مسلسل اور بے لوث جدو جہد کی ہے ۔ ایک علیحدہ اسلامی ریاست کے حصول کے لیے ان جانثار علماء حق اور صوفیاء کرام نے تن من دھن کی بازی لگا دی اور یوں پاکستان کے نام سے ایک علیحدہ مسلم ریاست وجود میں آئی ۔جدیداسلامی ریاست میں دینی اقدار کے فروغ اور غلبہ اسلام کے لیے نئے حالات اور نئے چیلنجز سامنے آئے جس ریاست کی بنیاد ہی کلمہ دین لااللہ الاللہ محمد رسول اللہؐ پر رکھی گئی اسکا بنیادی تقاضہ یہ تھا کہ ہر دور میں قوت عشق (یعنی محبت رسولؐ) اور نظامِ نبویؐ کا چرچا ہو اہلِ حق اسے مقام مصطفی اور نظامِ مصطفی کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ نظامِ مصطفی اور مقامِ مصطفی کی تحریک کے ایک ان تھک مجاہد اور بے لوث کارکُن حضرت علامہ پیر سید طالب حسین شاہ گردیزی ؒ نے اپنے عنفوانِ شباب سے لیکر عالم پیری تک اپنا کل سرمایہ حیات دینِ مصطفی کی سر بلندی کیلئے صرف کیا۔ اسلام کا یہ عظیم مبلغ فخر السادات پیر سید محمد اکرم شاہ کے گھر ساگرہ تحصیل منڈھیر ضلع پونچھ (کشمیر )میں مارچ 1938کوپیدا ہوا آپ کا خاندان علمی اور روحانی تھا ۔ نسباً آپ کا تعلق شمس العارفین سید یوسف شاہ گردیزی ؒ جو کہ افغانستان کے صوبہ گردیز سے ملتان تشریف لائے تھے سے ہے جس کی بنا پر آپ کو گردیزی لکھا جاتا ہے۔اسطرح آپ کا سلسلہ نسب حضرت امام جعفر صادق بن حضرت امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن حضرت امام حسینؓ سے ملتا ہے ۔ پیر سید طالب حسین گردیزی اپنے والد گرامی اور اپنے خاندان کے دیگر بزرگوں کے ساتھ ہندو پاک کی تقسیم کے وقت کشمیر سے ہجرت کر کے پاکستان آگئے اور شروع میں چک جمال ضلع جہلم اور پھر سید کسراں تحصیل گجر خان قیام پذیر رہے۔ حصول علم کی تڑپ نے آپ کو چین سے نہ بیٹھنے دیا ۔ آپ جامعہ محمدیہ رضویہ بھکھی شریف (منڈی بہاؤالدین) کا رخ کیا اور یہاں حضرت حافظ الحدیث استاذالعلماء حضرت پیر سید جلال الدین شاہ مشہدی کے سامنے زانوائے تلمذ طے کیے اور پھر لاہور میں شیخ المحدثین حضرت سید ابو البرکات سے جون 1957میں دورِ حدیث مکمل کیا اور سند فراغت حاصل کی ۔روحانی تسکین کے لیے کیلیانوالا شریف میں آفتاب ولایت حضرت پیر سید نور الحسن شاہ بخاری سے بیعت اور خلافت حاصل کی ۔ تحریک ناموسِ رسالت محاذ کے مسئلے میں آپ کا کردار نمایاں نظر آتا ہے ۔ تحریک ختم نبوت میں قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کی آپ کا شمار قائد ملت اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے عمر بھر مذہبی اعتبار سے مرکزی جماعت اہلسنت اور سیاسی اعتبار سے جمیعت علماء پاکستان سے وابستہ رہے ۔ عالمی مبلغ اسلام ہونے کی حیثیت سے برطانیہ ،مصر ، سعودی عرب ، ہالینڈاور دیگر کئی ممالک کے تبلیغی دورے کیے آپ کی طبیعت میں سادگی اور ملنساری حد درجہ پائی جاتی۔ اپنے مسلک کے تمام علماء سے عقیدت اور محبت کرتے تھے ۔ آپ ایک بلند پایۂ خطیب اور عالم دین تھے وعظ وتبلیغ میں محبت رسول و آلِ رسول کا درس نمایاں نظر آتا اور اسی کو سرمایہ حیات قرار دیتے تھے۔ 1984سے لیکر 2008تک مسلسل حرمین شریفین حاضری دیتے رہے ۔ دینی و تعلیمی خدمات سر انجام دینے میں بھی کسی سے پیچھے نہ رہے اس مقصد کے لیے آپ نے بچے اور بچیوں کے لیے کئی دینی ادارے قائم کیے ۔ آپ کی دین سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ اور پھر تا حیات ان اداروں کی سرپرستی فرماتے رہے ۔آپ نے متعدد کتابیں تصنیف کی جن میں نکاح ، زولیخا ، ننگے سر نماز، پیاری نماز، رہنمائے سلوک اور انگریزی زبان میں ترجمہ گفٹ آف معراج شریف شامل ہے۔ دین اسلام متین کا یہ عظیم مبلغ 17مارچ2009 کواپنے خالق حقیقی سے جا ملا ۔ آپ کے چھوڑے ہوئے دینی و علمی ورثے کو آپ کے جانشین پیر سیدارشد حسین گردیزی نے نا صرف سنبھالہ ہے بلکہ دورِ جدید کے مطابق ان میں اور وسعت پیدا کر دی ہے ۔دینی و عصری تعلیم کے ساتھ جدید کمپیوٹر لیب اور وسیع لائبریری ان کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے آج ان تعلیمی اداروں میں بچے اور بچیوں کی کثیر تعداد دینی تعلیم سے بہرور ہو رہی ہے اور یہ تمام سلسلے فی سبیل اللہ جاری و ساری ہیں۔  

epaper

ای پیپر-دی نیشن