• news
  • image

امیر المؤمنین علی بن ابی طالبؓ

آغا سید حامد علی شاہ موسوی 
امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کی ذات کمالات کی انتہا ہے عشق رسالت ، شجاعت ، علم ، ایمان ، صداقت ، عدالت و قضاوت کا استعارہ علی ابن ابی طالب ہیں تمام شیعہ سنی کتب فقہا علمائ￿ اورپاکیزہ صحابہ گواہ ہیں نبی تک رسائی کا راستہ ہیں ، علی شیرخدا کی عبدیت کی معراج ہیں ، علی مظلوموں کے دادرس ہیں محتاجوں بے کسوں غمزدوں کی پناہ گاہ ہیں۔علی ابن ابی طالب ، امت مسلمہ کے اتحاد کا مرکز ہیں۔حضرت علیؓ کے فضائل و کمالات کا احاطہ کرنا ناممکن ہے اسی لئے امام اہلسنت امام احمد بن حنبل نے فرمایا علیؓ کیلئے جتنے فضائل و مناقب ہیں کسی کے لئے نہیں علامہ ابن حجر مکی نے تحریر فرمایا کہ علی ؓ کے مناقب و فضائل  بیان سے باہر ہیں۔حق کا حقیقی عرفان رکھنے والے اولیائ￿ مقام علی ابن ابی طالبؓ کا ادراک کرنے سے معذور نظر آتے ہیں۔جیسا کہ خواجہ فرید الدین عطار فرماتے ہیں 
مصطفی را مرتضی  بشناختہ 
مرتضی ٰ را مصطفی بشناختہ
کتب تاریخ گواہ ہیں کہ نجیب الطرفین ہاشمی مولود حرم حضرت علی ابن ابی طالبؓنے ولادت کے بعد تین دن تک اس وقت تک آنکھ نہ کھولی جب تک آنحضور نے اپنی آغوش میں نہ لے لیاعلی ؓ کی پہلی خوراک نبی کریمؐ کا لعاب دہن بنا۔اور نبی کریمؐ کے لعاب کی تاثیر یہ تھی کہ علی ؓ  منبر کے اوپر بلند آواز سے کہتے تھے : ’’سلونی سلونی قبل اس سے کہ میں دنیا سے چلاجاؤں ، مجھ سے سوال کرو کیونکہ میرے بعد مجھ جیسا کوئی نہیں ملے گا جس سے تم سوال کرسکو گے۔قرآن کریم کی جس آیت اور پیغمبر اکرم ؐکی جس سنت کے بارے میں بھی مجھ سے سوال کروگے میں ہر ایک کا تم کو جواب دوںگا۔خدا کی قسم !  ابدسے لے کر قیامت تک جس چیز کے بارے میں بھی سوال کرو گے میں اس کا جواب دوںگا خد ا کی قسم ، قرآن کریم میں کوئی ایسی آیت نہیں ہے مگر یہ کہ میں جانتا ہوں کہ وہ رات کو نازل ہوئی ہے یادن میں ، دشت میں نازل ہوئی ہے یا پہاڑ پر۔(ابن کثیر، مستدرک حاکم ، محب طبری)۔ شیخ سعدی شیرازی کے مطابق 
مسلم بد سلونی گفتن اْو را 
علم مصطفی را بود اْو در
آپ کا سلونی فرمانا آپ ہی کے شایان تھا کیونکہ آپ علم مصطفی کا دروازہ ہیں
عالم اہلسنت علامہ ابن صباغ مالکی تحریر فرماتے ہیں کہ ’’حضرت علی ؓ سے پہلے خانہ کعبہ میں کسی کی بھی ولادت نہیں ہوئی یہ وہ فضیلت ہے جو خدا نے ان کیلئے مخصوص فرمائی تاکہ لوگوں پر آپ کی جلالت ، عظمت اور مرتبت کو ظاہر کرے۔ آپ کا نام حضرت ابو طالب نے اسد رکھا والدہ حضرت فاطمہ بنت اسدنے حیدر اور سرور کائنات نے آپ کا نام علیؓ رکھا۔ایک دن آپ کی والدہ کہیں کام سے گئی ہوئی تھیں کہ جھولے پر ایک سانپ جا چڑھا۔ حضرت علیؓ نے ہاتھ بڑھا کر اس کے منہ کو پکڑ لیا اور کلہ کو چیر پھینکا۔ماں نے واپس آکر دیکھاتو بیساختہ کہہ اٹھیں کہ میرا فرزند حیدر ہے۔
علی پیدا تو حضرت ابو طالب کے گھر میں ہوئے لیکن ان کی تربیت نبی کریم ؐنے فرمائی۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ ارشاد فرماتے ہیں۔’’رسول خدا مجھے سینے سے چپٹائے رکھتے تھے ،اپنے پہلو میں سلاتے تھے مجھے اپنی خو شبو سنگھاتے تھے ،پہلے خود کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منہ میں دیتے تھے۔میں نبی کریمؐ کے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے پیچھے چلتا ہے ‘‘(نہج البلاغہ)
اہل سنت کے مشہور مفسر ثعلبی کہتے ہیں کہ جب نبی کریم حضرت محمد مصطفی ؐنے ہجرت کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا تو اپنے قرضوں کی ادائیگی اور موجود امانتوں کی واپسی کے لیے حضرت علی کو اپنی جگہ مقرر کیا اور آپؐ نے حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ وہ آپؐ کے بستر پر لیٹ جائیں۔ اپنی مخصوص سبز رنگ کی چادر انہیں اوڑھنے کو دی۔ اس وقت خداوند عالم نے جبرئیل اور میکائیل پر وحی کی کہ میں نے تم دونوں کے درمیان بھائی چارہ اور اخوت قائم کی ہے اور تم میں سے ایک کی عمر کو زیادہ مقرر کیا ہے۔ تم میں سے کون ہے جو ایثار کرتے ہوئے دوسرے کی زندگی کو اپنی حیات پر ترجیح دے ان میں سے کوئی بھی اس کے لیے تیار نہ ہوا تو ان پر وحی ہوئی کہ جا ؤ دیکھو اس وقت حضرت علیؓمیرے پیغمبر ؐکے بستر پر سویا ہوا ہے اور وہ تیار ہے کہ اپنی جان ان پر قربان کردے۔ زمین پر جا? اور اس کے محافظ و نگہبان بن جائو۔جب جبرئیل حضرت علیؓکے سرہا نے آئے اور میکائیل پائوں کی طرف بیٹھے تھے تو جبرئیل کہہ رہے تھے سبحان اللہ۔ آفرین آپ پر اے ابو طالب کے بیٹے ! اللہ آپ کی وجہ سے فرشتوں پر فخر و مباہات کررہا ہے۔اس موقع پر مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی
 اور لوگوں میں خدا کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جو خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے اپنی جان تک بیچ ڈالتے ہیں اور خدا ایسے بندوں پر بڑا شفقت کرنے والا ہے (سورہ بقرہ 207) اور اسی بناء  پر وہ تاریخی رات ’’ لیلۃ المبیت ‘‘ کے نام سے مشہور ہوگئی۔اور علی ابن ابی طالب نے اپنی جان بیچ کر اللہ کی رضا خریدلی۔
دعوت ذوی العشیرہ کے موقع پر اللہ کے نبی کی تائید و نصرت کے اعلان پر پر فخر موجودات نبی کریمؐ نے فرمایااے علیؓ تم میرے بھائی وزیر اور وارث ہو۔اپنے آخری حج سے واپسی پر حضرت علی ؓ کونبی کریم ؐنے غدیر خم کے میدان میں تمام حاجیوں کو جمع کرکے یہ اعلان فرمایا کہ من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ جس جس کا میں مولا ہوں اس کا علیؓ مولاہے (المستدرک ،ترمذی الجامع الصحیح، فضائل الصحابہ احمدبن حنبل ،طبرانی ،ابن عساکر)یہ اعلان سن کر حضرت عمر خطابؓنے حضرت علیؓ کو مخاطب کرکے کہا اے ابو طالب کے بیٹے !آپ ہمیشہ کیلئے مومنین و مومنات کے مولا ہوگئے (فتح القدیر) مولا نا  مولاناروم کے بقول
والی یزداں علی است ،
آیت ایمان علی است 
نکتہ رحمان علی است ،
گوش کن و دم مزن (مولاناروم)
 اللہ کے ولی حضرت علی ؓ سرچشمہ ولایت ہیں جس سے سیراب ہونے والے اولیائے کرام نے دنیا کے گوشے گوشے میں اللہ کی واحدانیت اور نبی کریمؐ کی رسالت کے پیغام کو عام کیا۔رسول اللہؐنے فرمایا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ ہیں ایک اور مقام پر فرمایا میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ۔(جامع ترمذی:جلد دوم )اس کی جھلک حضرت علی ابن ابی طالب کے خطبات کے مجموعہ نہج البلا غہ سے ہوتی ہے۔
آج وطن عزیزپاکستان سمیت دنیا کے اکثر ممالک کے عوام بیڈ گورننس کے باعث مسائل کے گرداب میں گرفتار ہیں حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے جب حضرت مالک اشتر کو مصر کا عامل و گورنر مقرر کیا تو انہیں ایک مکتوب تحریر کیا جوہر عہد کی حکومتوں کیلئے نمونہ عمل ہے
تاجروں کے بارے فرمایا’’ بعد تاجروں اور صنعت کاروں کے بارے میں نصیحت حاصل کرو اور دوسروں کو ان کے ساتھ نیک بر تاؤ کی نصیحت کروچاہے وہ ایک مقام پرکام کرنے و الے ہوں یا جا بجا گردش کرنے والے ہوں اور جسمانی محنت سے روزی کمانے والے ہوں۔ اس لئے کہ یہی افراد منافع کامرکز اور ضروریات زندگی کے مہیاکرنے کا وسیلہ ہوتے ہیں۔ یہی دور از مقامات بردبحر 'کوہ و میدان ہر جگہ سے ان ضروریات کے فراہم کرنے والے ہوتے ہیںجہاں لوگوں کی رسائی نہیں ہوتی ہے اور جہاں تک جانے کی لوگ ہمّت نہیں کرتے ہیں۔یہ وہ امن پسند لوگ ہیں جن سے فساد کا خطرہ نہیں ہوتا ہے اور وہ صلح و آشتی والے ہوتے ہیں جن سے کسی شورش کا اندیشہ نہیں ہوتا ہے۔اپنے سامنے اور دو سرے شہروں میں پھیلے ہوئے ان کے معاملات کی نگرانی کرتے رہنا اور یہ خیال رکھنا کہ ان میں بہت سے لوگوں میں انتہائی تنگ نظری اور بدترین قسم کی کنجو سی پائی جاتی ہے یہ منافع ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں اور اونچے اونچے دام خود ہی معین کردیئے میں' جس سے عوام کو نقصان ہو تا ہے اور حکام کی بد نامی ہوتی ہے۔ لوگوں کو ذخیرہ اندوزی سے منع کرو کہ رسول اکرمصلی اللہ علیہ وا?لہ وسلم نے اس سے منع فرمایاہے خرید و فروخت میں سہولت ضروری ہے جہاں عادلانہ میزان ہوا ور وہ قیمت معین ہو جس سے خریدار یا بیچنے والے کسی فریق پر ظلم نہ ہو۔ اس کے بعد تمھارے منع کرنے کے با وجود اگر کوئی شخص ذخیرہ اندوزی کرے تو اسے سزا دو لیکن اس میںبھی حدسے تجاوز نہ ہونے پائے۔
 غربا ئ￿ اور مساکین کے بارے میں حضرت علی نے فرمایا ’’ اس طبقہ میں مانگنے والے بھی ہیں اور غیرت داربھی ہیں جن کی صورت سوال ہے۔ ان کے جس حق اللہ نے تمھیں محافظ بنا یا ہے اس کی حفاظت کرو اور ان کے لئے بیت المال اورارض غنیمت کے غلات میں سے ایک حصہ مخصوص کر دو۔۔۔جن لوگوں کی رسائی تم تک نہیں ہے اور انھیں نگاہوں نے گرادیا ہے اور شخصیتوںنے حقیر بنادیا ان کے حالات کی دیکھ بھال بھی تمھارا ہی فریضہ ہے لہٰذا ان کے لئے متواضع اور خوفِ خدا رکھنے والے معتبر افراد کو مخصوص کردو جوتم تک ان کے معاملات کو پہونچاتے رہیں۔۔۔اور یتیموں اور کبیرا لسن بوڑ ھوں کے حالات کی بھی نگرانی کرتے رہنا کہ ان کا کوئی وسیلہ نہیں ہے اور یہ سوال کرنے کے لئے کھڑے بھی نہیں ہوتے ہیں ظا۔۔ اور دیکھو صاحبانِ ضرورت کے لئے ایک وقت معین کر دو جس میں اپنے کو ان کے لئے خالی کر لو اور ایک عمومی مجلس میں بٹیھو۔
ور جب لوگوں کے ساتھ جماعت کی نماز ادا کر و تو نہ اس طرح پڑھو کہ لوگ بیزار ہو جائیں اور نہ اس طرح کہ نماز برباد ہو جائے اس لئے کہ لوگوں میں بیمار اور ضرورت مندا فراد بھی ہوتے ہیں اور میں نے یمن کی مہم پر جاتے ہوئے حضور اکر م ؐسے دریافت کیا تھا کہ نماز جماعت کا انداز کیا ہونا چاہئے تو آپ نے فرمایا تھا کہ کمزور ترین آدمی کے اعتبار سے نماز ادا کرنا اور مومنین کے حال پر مہربان رہنا۔
حضرت علی نے حکمرانوں کو نصیحت کی کہ اس کہ بعد یہ بھی خیال رہے کہ اپنی رعایا سے دیرتک الگ نہ رہنا کہ حکام کا رعایا سے پس پردہ رہنا ایک طرح کی تنگ دلی پیدا کرتا ہے اور ان کے معاملات کی اطلاع کی اطلاع نہیں ہوپاتی ہے اور یہ پردہ داری انھیں بھی ان چیزوں کے جاننے سے روک دیتی ہے جن کے سامنے حجابات قائم ہوگئے ہیں اور اس طرح بڑی چیز چھوٹی چیزبڑی ہوجاتی ہے۔ اچھابرْ ابن جاتا ہے اور بْرا اچھا ہوجاتا ہے اور حق باطل سے مخلوط ہوجاتا ہے۔ 
خبردارتم اپنے عہد و پیمان سے غداری نہ کرنا اور اپنے قول و قرار میں خیانت سے کام نہ لینا اور اپنے دشمن پر اچانک حملہ نہ کردینا۔
رعایاسے کوئی وعدہ کرکے ا س کے بعد وعدہ خلافی بھی نہ کرنا کہ یہ طرز عمل احسان کو برباد کردیتا ہے اور زیادتی عمل کا غرور حق کی نورانیت کو فنا کردیتا ہے اور وعدہ خلافی خدا اور بندگانِ خدا دونوں کے نزدیک ناراضگی کا باعث ہوتی ہے
 ہر بات کو اس کی جگہ رکھو اور ہر امر کو اس کے محل پر قرار دو۔ دیکھو جس چیز میں تمام لوگ برابر کے شریک ہیں اسے اپنے ساتھ مخصوص نہ کر لینا اور جو حق نگا ہوں کے سامنے واضح ہو جائے اس سے غفلت نہ بر تنا
 ماضی میں گذر جانے والی عادلانہ حکومت اور فاضلانہ سیرت کو یاد رکھو' رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار اور کتاب خدا کے احکام کو نگاہ میں رکھو ا ورجس طرح ہمیں عمل کرتے دیکھا ہے اسی طرح ہمارے نقشِ قدم پر چلو اور جو کچھ اس عہد نامہ میں ہم نے بتا یا ہے اس پر عمل کرنے کی کوشش کرو۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن