خواجہ عمادالدین ۔۔۔زندہ ومثبت کردار
یہ شاید گورنمنٹ کالج چشتیاںتھا جہاں میں اپنے دوست ،کلاس فیلواور ساتھی مقررشاکر صاحب کے ہمراہ ایک مباحثے میں شرکت کیلئے گیا۔سبھی چہرے جانے پہچانے اور مباحثوں کے دوست احباب تھے۔ مگر ایک چہرہ اجنبی تھا۔اگرچہ اس کا تعلق میرے ہی شہر گوجرانوالہ سے تھا۔یہ تھے گورنمنٹ کالج کے خواجہ عمادالدین جو شریک مباحثہ ہوئے۔بالکل لڑکپن تھا جسے ’’سنجیدہ‘‘بنانے کیلئے وہ اچکن پہن کرشریک ہوئے۔انکے بدن پر یہ اچکن پہلی اور آخری باردیکھی گئی۔ عمادالدین ایک بالکل نیا مقررتھاجو پہلی بار کسی بین الکلیاتی مباحثے میں شریک ہوا۔اپنی باری پر جب اس نے اپنی تقریر کا آغاز کیا تو اپنے وجود کا احساس دلایا اور پھر ڈھیروں دادسمیٹتے ہوئے سٹیج سے رخصت ہوگیا۔میرے لئے انوکھی بات یہ تھی کہ ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے اتنا زیادہ تعلق کیوں نہ قائم ہوسکا۔ نتائج کا اعلان ہواتو خواجہ عمادالدین نے سب پرانے مقررین کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اول انعام حاصل کرکے حیران کردیا۔پھروہ گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ کی سٹوڈنٹس یونین کا صدر منتخب ہواتو مباحثوںمیں حصہ لینا چھوڑ دیا۔میں بھی قانون کی تعلیم کیلئے پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں چلاگیا۔مگر رابطے نہ کٹ پائے ۔اور وہ گاہے ملنے کیلئے ہاسٹل آتے رہے ۔جب میں نے اسلامی جمیعتہ طلبہ کے مقابلے میں لاء کالج کی جنرل سیکرٹری شپ کیلئے انتخابات میں حصہ لیا تو ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ گوجرانوالہ سے جہاں میرے دیگر پرانے دوست انتخابی مہم کا حصہ بننے کیلئے لاہور آئے وہیں اسلامی جمعیتہ کے خواجہ عمادالدین اور چوہدری افتخار(اب مرکزی ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات تحریک انصاف)بھی الیکشن سے ایک شام قبل ہاسٹل پہنچ گئے۔میں نے دونوں دوستوں کو خاص طورپر اپنے کمرے میں ٹھہرایا اور پرانے ساتھی مطیع اللہ گھوڑے کوان کی خدمت پر مامور کیا اور دونوں دوستوں کا شکریہ اداکرتارہا ۔صبح جب انتخابات کا آغاز ہوا تو دونوں مجھ سے پہلے ہی کالج کے سبزہ زار میں پہنچ گئے ۔تھوڑی دیر بعد میں نے بھی جاکرنظر دوڑائی تو خواجہ عمادالدین کہیں دکھائی نہ دیئے ۔البتہ ایک طرف سے جمعیتہ کے کچھ طلبہ میرے خلاف نعرہ زن تھے اور دوسری طرف میرے ساتھی میری حمایت میں نعرے بلندکررہے تھے ۔مخالف گروہ کو ایک کورس میں نعرے لگوانے والے میرے دوست چوہدری افتخار کی پاٹ دار آواز کانوں کی بجائے دل کو چیرتی رہی ۔میں نے افتخار کے قریب جاکر پوچھا چوہدری صاحب یہ کیا ہورہا ہے توانہوں نے جواب دیاکہ بے شک آپ میرے دوست ہیں ۔میں رات بھر آپ کامہمان بھی رہا آپ نے خدمت بھی کی مگر ’’جماعتی نظم‘‘ کاتقاضا ہے جو میںسرانجام دے رہا ہوں ۔یہ واقعہ تو ایسے ہی ذہن میں آگیاجو آپ کے ملاحظے کیلئے تحریر کردیا ۔پھر بھی دونوں سے میں قطع تعلق کیا نہ دوستی کو خیر آبادکہا۔1977ء میں جب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف 9سیاسی جماعتوں کا اتحاد ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘وجود میں آیا توآغاز میں میری مصروفیات لاہور میں زیادہ رہیں کیونکہ یہ تحریک استقلال میں میرے عہدے کا بھی تقاضاتھا۔میاں خورشید محمود قصوری ،ملک حامد سرفراز اور نواب محمد اخان خاکوانی کے حلقوں میں میری مصروفیت زیادہ رہی بلکہ اس دوران میں نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک احتجاجی جلوس کی قیادت کرتے ہوئے تھانہ شمالی چھائونی لاہور پر قبضہ بھی کرلیا جو میاں محمود علی قصوری کے علم میں آیا تو انہوں نے فورا وہاں پہنچ کرمیری سرزنش کی اور واپس دفتر بھیج دیا۔کچھ دنوں کے بعدمیںنے گوجرانوالہ میں "اتحاد"کے پلیٹ فارم سے اپنی پنجابی تقریروں کا آغاز کردیا۔یہی وہ وقت تھا جب خواجہ عمادالدین نے اردوزبان میں اپنی سیاسی تقریروں کاسکہ جمایا اورسامعین کالہو گرمایا۔ لوگ اسے سننے کیلئے منتظر رہتے ۔نوجوان ،رعنا، خوب صورت ،خوب سیرت خواجہ عمادالدین نے دنوں میں لوگوں کے دلوں میں جگہ بنالی۔چنددنوں میں وہ وقت آگیا کہ شہر بھر میں ایک طرف پنجابی زبان میں میری اور اردوزبان میں خواجہ عمادالدین کی تقریروں نے ایسارنگ جمایا کہ اسکے سامنے ٹھہرنا کسی پیشہ ور"مولوی مقررین "کے بس کی بات بھی نہ رہی ۔"پاکستان قومی اتحاد ’’کا خاتمہ‘‘ بالخیر"تونہ ہوا البتہ خواجہ عمادالدین اب شہر کے سیاسی ،ادبی ،مذہبی اور سماجی حلقوں کی آنکھ کا تارا بن گیا۔گوجرانوالہ شہر میں گورنمنٹ کالج کی صدارت سے لیکرچیمبرز آف کامرس تک اورخطابت سے لیکر محفل آرائی تک خواجہ عمادالدین نے دوستوں کے دلوں کو مسخر کیا۔ایساجگر دار اور بے درد دوست ملنا مقدر کی بات ہوتی ہے پھروہ اپنے طبقے کے ہر فردکی طرح منیر نیازی کا شعربن گیاکہ تیری چاہت کامختصر موسم رزق کی جستجو میں بیت گیا۔یہ کالم مجھ پر قرض تھااور اسے میں محبت ،دوستی اورتکریم کے انہی سکوں میں واپس کرناچاہتا تھا جن سکوں میں لیاتھا۔اس سے قبل کہ نایاب ہونیوالے یہ سکے بالکل ہی ایک داستان گم گشتہ بن کر رہ جائیں۔ہماری طویل رفاقت ایک طویل داستان بھی ہے ۔باقی باتیںپھر کبھی سہی۔