• news
  • image

میر تقی میرؔ کا دیوانِ ہفتم اور معین الدین عقیل

حال ہی میں اُردو زبان و ادب کے نامور نقاد، محقق اور ادیب پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل نے نامور شاعر ’میر تقی میرؔ کے غیر مطبوعہ دیوانِ ہفتم‘ کا سراغ لگایا ہے۔ ملائیشیا کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کوالالمپور کے انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک سیلائزیشن اینڈ تھاٹ کی لائبریری میں کینیڈا سے تعلق رکھنے والے اُردو سکالر عبدالرحمن بارکر کا ذخیرئہ کتب موجود ہے۔ اُدھر سے ڈاکٹر معین الدین عقیل کے ذریعے اس نسخے کی دریافت ممکن ہوئی۔ اس سے قبل میر تقی میرؔ کے چھ دواوین کا ذکر تو زبانِ زدعام ہے۔ یہ وہ ہی نسخہ ہے جس کے بارے میں ڈاکٹر جمیل جالبی اپنی تمام تر تلاش و تحقیق کے بعد بالآخر اپنی تاریخ میں یہ لکھنے پر مجبور ہو گئے کہ : ’’اس دیوانچے میں دیوانِ ششم کے بعد سے لے کر وفات تک کا کلام شامل تھا، یہ نایاب ہے۔‘‘ جمیل جالبی نے بھی قیاس کیا ہے کہ میرؔ کا دیوان ششم 1223ھ یا اس سے قبل لکھنؤ میں مکمل ہو چکا تھا۔ میرؔ کی وفات 20شعبان 1225ھ (مطابق 20ستمبر1810ئ) کو ہوئی۔ گویا دیوانِ ششم کی تکمیل کے بعد میرؔ کم و بیش دو سال تک زندہ رہے۔ اس دوران اُنھوں نے جو کلام کہا وہ اُن کے دیوانِ ہفتم یا دیوانچے سے موسوم ہے۔ یہ میرؔ کا ایسا کلام ہے جو میرؔ کے کسی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ نسخے میں نہیں مِلتا۔ بلاشبہ میر تقی میرؔ بقول مولوی عبدالحق سرتاج شعراء اُردو ہیں۔ میرؔ اُردو کے سب سے بڑے اور مسلم الثبوت اُستاد تھے۔ تمام نقادوں نے ان کی عظمت کا اعتراف کیا۔ ناسخؔ، غالبؔ، حسرتؔ وغیرہ سبھی نے میرؔ کی عظمت کا اعتراف کیا۔ ذوقؔ کو عُمر بھر یہی رونا رہا  :
؎نہ ہوا پر نہ ہوا میرؔ کا انداز نصیب
ذوقؔ یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
خود میرؔ کو بھی اپنی عظمت کا احساس تھا  :
؎جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہرگز
تاحشر جہاں میں مرا دیوان رہے گا
میرؔ کے اس دیوانِ ہفتم کا ذکر غالباً پہلی مرتبہ جمیل جالبی ’’تاریخِ ادبِ اُردو‘‘ کی دوسری جلد میں کر چکے تھے۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل مذکورہ دیوانِ ہفتم کے تعارف میں لکھتے ہیں کہ ’’دیوان کے سرِ عنوان لفظ ’منتخب‘ کا استعمال عمومی روایت سے ہٹ کر اور ایک مختلف مثال ہونے کے سبب کچھ حیران کُن بھی ہے۔ اس کا عقدہ متن کے بنظر غائر مطالعے کے بعد یوں لگتا ہے کہ دراصل یہ کوئی متداول اور سلسلہ وار مستقل دیوان کا ایک اگلا حصہ نہیں بلکہ یہ اس وقت کی عام روایت سے مختلف ایک ایسی مثال ہے … یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ انتخاب میرؔنے خود نہ کیا ہو اور اس کے کسی عقیدت مند بلکہ اس مخطوطے کے کاتب کلب علی خاں عرف کالے خاں ہی نے جو خود بھی میرؔ کا عقیدت مند لگتا ہے، یہ انتخاب کیا ہو اور اس کے لیے عنوان ’بحر کبد‘ بطورِ صفت اختیار کیا ہو۔‘‘ یہاں لفظ منتخب کا دیوان کے ساتھ ہونا ایک نئی روایت کا آغاز ہی نہیں بلکہ حقیقت کا اظہار بھی ہے یعنی یہ دیوان نہیں بلکہ شعری انتخاب ہے یا ایک ایسا دیوان ہے جو منتخب کلام پر مشتمل ہے۔ دیوان ہفتم کا ایک شعر  :
؎حرف نہیں جان بخشی میں اسکی خوبی ہے اپنی قسمت کی
ہم سے جو پہلے کہہ بھیجا سو مرنے کا پیغام بھیجا
میرؔ نے ایک شعر میں یوں تو چیدہ چیدہ اشعار کا ذکر کیا ہے  :
؎اشعارِ میرؔ سب نے چُن چُن کے لکھ لیے ہیں
رکھیں گے یاد ہم بھی کچھ بیتیں چیدہ چیدہ
بہرحال چھ دواوین سے محض 147 غزلوں کا انتخاب بہت سخت انتخاب ہے۔ مندرجہ بالا شعر سے یہ تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ میرؔ کے ذہن میں منتخب اشعار کا کوئی تصور تو موجود تھا لیکن یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ (دیوانِ ہفتم) میرؔ نے خود ہی اپنی غزلوں کا انتخاب کیا ہو۔ بہرحال سنگِ میل پبلی کیشنز نے اسے ’’میر تقی میرؔ کا غیر مطبوعہ دیوان ہفتم : دریافت و انکشاف‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔میر تقی میرؔ کی اس دیوانِ ہفتم کی دریافت کیلئے پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب پوری ادبی دنیا کی طرف سے مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ’’اُردو ادب‘‘ (جنوری تا مارچ 2020ئ) میں ان کا ایک اور مضمون ’’میر تقی میرؔ کی ایک گم شدہ بیاض‘‘ بھی شائع ہو چکا ہے۔ اس دریافت کیلئے بھی معین الدین عقیل صاحب مبارک باد اور شکریے کے مستحق ہیں۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل اپنی علمی، ادبی اور تعلیمی خدمات کی بدولت کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ اُنھوں نے گذشتہ پانچ دہائیوں سے اپنے آپ کو اُردو زبان و ادب کی خدمت کیلئے وقف کر رکھا ہے۔ موصوف اسّی (80) سے زائد کتابوں کے مصنف و مؤلف ہیں۔ ان میں تحریک پاکستان اور مولانا مودودی، تحریک آزادی میں اُردو کا حصّہ، انجمن ترقی اُردو پاکستان، اقبال اور کلامِ اقبال وغیرہ شامل ہیں۔ اندرونی و بیرونی کئی اداروں میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے سفارت خانے میں اُردو کی تدریس سے لیکر، اورینٹل یونیورسٹی نیپلز اٹلی، پاکستان شپ اونر کالج کراچی، جامعہ کراچی، ٹوکیو یونیورسٹی، بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد جیسے اداروں میں خدمات انجام دیں۔تحقیق و تدریس گویا معین الدین عقیل صاحب کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ ابھی بھی اُن کا قلم تھمتا نہیں۔ کچھ نہ کچھ کرنے کو تلاش کر ہی لیتے ہیں۔ حال ہی میں (2019) اُنھوں نے دہلی کی تاریخ اور اسکے آثار کو اپنا موضوع بناتے ہوئے ایک علمی، ادبی اور تاریخی تالیف ’’تاریخ و آثارِ دہلی‘‘ مرتب کی جسے انجمن ترقی اُردو (ہند) نے شائع کیا ہے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر معین الدین عقیل اپنے ذاتی کتب خانے کا اسّی فی صد جاپان کی کیوتو یونیورسٹی کو ہبہ کر چکے ہیں جو ان کا زبان و ادب اُردو سے لگائو اور محبت کا مُنہ بولتا ثبوت ہے۔ حکومتِ جاپان نے بھی انکے اس اقدام اور اُردو کیلئے خدمات کو سراہتے ہوئے 2013ء میں جاپان کے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ’’آرڈر آف دی رائزنگ سن‘‘(Order of the Rising Sun) عطا کیا۔ بہرحال اس مختصر سے کالم میں معین الدین عقیل کی خدمات کا اعتراف سُورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہو گا۔ ہمیں یقین ہے کہ آج اگر ڈاکٹر جمیل جالبی زندہ ہوتے تو وہ ’’میر تقی میرؔ کے دیوانِ ہفتم‘‘ کی دریافت پر موصوف کو خوش آمدید بھی کہتے اور انہیں ’’تاریخِ ادبِ اُردو‘‘ میں کچھ اضافے و حذف کی ضرورت بھی پڑتی۔ ہماری دُعا ہے کہ معین الدین عقیل صاحب اپنی نئی نئی دریافتوں و انکشافات کے ساتھ یوں ہی آسمانِ ادبی دنیا پر جگمگاتے رہیں۔ 

epaper

ای پیپر-دی نیشن