ٹیکس معاشی ترقی کی بنیاد
یہ بات قرین از قیاس نہیں کہ اقتصادی پالیسی اور مضبوط کی مثبت رحجان اور استحکام ریاستوں کو تازہ خون سپلائی کرتا ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کی نئی ٹیکس پالیسی اور معیشت کے لئے کئے گئے اقدامات کیا برس ہا برس سے سے زوال پذیر معاشی نظام کو مستحکم کر سکیں کے ٹیکس ناہندگان سے لے کر کرپشن کے خاتمے تک حکومت کے پاس کیا موثر ایجنڈا ہے جس کے تحت جادو کی چھڑی گھماتے ہی ایک موثر نظام سامنے آجائیگا کیونکہ ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ ہماری حکومتوں کا کبھی غربت مکاؤ فارمولا نہیں رہا لہٰذا کمزور معاشی ڈھانچے کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لئے جس مہارت چابکدست اور بروقت فیصلوں کی ضرورت ہے حکومت اس پر کتنا عمل پیرا ہوتی ہے حکومتی دعوؤں کے مظابق جدید ڈیجیٹل اور ٹریک سسٹم یقیناً ان لوگوں تک رسائی ممکن بنا سکے گا جو ٹیکس نادھندگان ہیں ایک طرف تو 22 کروڑ کی آبادی میں لاکھوں لوگ ٹیکس ادا کررہے ہیں دوسری طرف41 فیصد آبادی 15 سال سے کم عمر ہے اس زاویے سے دیکھا جائے تو ٹیکس کی وصولی کی شرح بہت کم ہے اگر پیداواری تناسب سے دیکھا جائے تومحصولات کی شرح کم ہونے کے باعث ریاست اپنے بنیادی فرائض یعنی عوام کی جان اور مال کے تحفظ میں بھرپور اقدامات نہیں کرسکتی ان حالت میں ان پالیسیوں کی ضرورت ہے کہ ان چیلنجز سے نمٹا جاسکے اس پالیسی کے تحت اکیس لاکھ لوگوں کو نوٹسز ارسال کردئیے گئے ہیں جو ٹیکس نادھندگان ہیں غربت کے خاتمے میں احساس پروگرام کیش سپورٹ اور لنگر خانوں کا قیام قابل سائش ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ افرادی کھپت کے لئے روزگار مہیا کرنا اور کا رخانوں کا قیام ریڑھ کی ہڈ ی کی حیثیت رکھتے ہیں ہماری فارن اور ملکی انوسٹمنٹ کورونا کی وجہ سے سست روی کا شکار رہی ہے جس پر خاطر توجہ کی ضرورت ہے اعداد و شمار کے حوالے سے دیکھا جائے تو گروتھ ریٹ میں اضافہ معاشی استحکام کی طرف مثبت اقدام ہے موجودہ بجٹ خسارے کا بجٹ حکومت کی طرف سے اس خسارے کو کم کرنے کی کوشش کے عندیہ کا اظہار بھی اچھا اقدام ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کم سے کم گردشی قرضوں پر انحصار برامات کے حجم اور غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کے لئے اس میکنزم کی ضرورت ہے کہغربت میں کمی کی جائے روزگار میں اضافہ کیا جائے اور انسانی وسائل کی ترقی پر زور دیا جائے تاکہ روبہ زوال معیشت کو کسی پٹری پر ڈالا جا سکے اگر ہم مضبوط معیشت کے لئے غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی نہیں کرتے کرپشن کے خاتمے کے لئے کوئی پلیٹ فارم نہیں اور ٹیکس نادھندگان تک رسائی ممکن نہیں بناتے تو ہارورڈ کے تمام اقتصادی ماہرین کی خدمات بھی حاصل کرلیں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکتے ۔