• news
  • image

حمزہ کی واپسی، شہباز شریف کی تیاریاں!!!!

حمزہ شہباز شریف کی جیل سے عملی سیاست میں واپسی ہوئی ہے گذشتہ روز ہونے والی ریلی نے یہ ثابت کیا ہے کہ لاہور میں حمزہ شہباز شریف ن لیگ کا سب سے مضبوط اور موثر چہرہ ہیں۔ وہ سوشل میڈیا سٹار تو نہیں ہیں لیکن سیاسی طور پر لاہور میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ پی ڈی ایم کے جلسوں کے دوران بھی یہ بات واضح طور پر محسوس کی گئی کہ ن لیگ کے کارکنوں کو جلسہ گاہ تک لانا، سیاسی ماحول بنانا، جلسہ کامیاب بنانا، سیاسی طاقت کا مناسب مظاہرہ کرنا اور سٹریٹ پاور کو ثابت کرنا ہو تو ن لیگ حمزہ شہباز شریف کے بغیر کوئی کامیاب سیاسی جلسہ نہیں کر سکتی۔ حالات و واقعات اور حمزہ کی عدم موجودگی میں یہ ثابت ہوا ہے کہ لاہور میں ن کی سیاست پر اس کا واضح کنٹرول ہے۔ 
حمزہ شہباز کا کنٹرول صرف لاہور تک محدود نہیں ہے بلکہ پنجاب میں پارٹی کو منظم کرنے اور اسے فعال رکھنے میں بھی ان کا کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حمزہ کی عدم موجودگی میں ن لیگ میں موجود ان کے مخالف دھڑوں کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ٹویٹ، ری ٹویٹ کی حد تک مہم تو چل سکتی ہے لیکن جب کبھی عملی سیاست اور کارکنوں کو سڑکوں پر لانے اور جلسہ گاہ کو بھرنے کی بات ہو گی تو وہاں میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف کے بغیر عوامی طاقت کا مظاہرہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں تو کچھ شک نہیں ہے کہ ن لیگ کی اندرونی دھڑے بندے میں مریم بی بی کے حمایتی موجود ہیں اور ان کے خیال میں میاں نواز شریف کی صاحبزادی کو قیادت کے فرائض انجام دینے چاہییں لیکن عملی طور پر سیاسی کارکن اس قیادت سے نالاں ہیں کیونکہ برسوں سے پارٹی کے ساتھ کام کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ قیادت انہی لوگوں کو کرنی چاہیے جو مسلسل سیاسی عمل کا حصہ ہیں اور برسوں سے سیاسی میدان میں کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
حمزہ شہباز شریف کے ساتھ اختلاف رکھنے والے بھی موجود ہیں لیکن اس کے باوجود جماعت میں ان کی حیثیت نواز شریف کی صاحبزادی سے بہت مختلف اور بہتر ہے۔ حمزہ شہباز کی واپسی پر ہونے والی ریلی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ لاہور میں کارکنوں کو سڑکوں پر لانے کے لیے حمزہ شہباز شریف کے گروپ کو قیادت کرنا ہو گی، اس کے بغیر کوئی سیاسی سرگرمی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ حمزہ شہباز کی واپسی ہو گئی ہے میاں شہباز شریف کی واپسی کی تیاریاں جاری ہیں جب یہ دونوں سیاسی میدان میں ہوں گے تو پھر یقینی طور پر پارٹی قیادت کا فیصلہ بھی ضرور ہو گا کیونکہ مستقبل کے سیاسی خاکے میں بھی اگر ن لیگ فیصلہ سازی کے معاملے میں تقسیم رہی اور ہر بڑی چھوٹی بات کے لیے لندن کی طرف دیکھتی رہی تو پھر جماعت پیچھے رہ جائے گی۔ بہرحال میاں نواز شریف کی عدم موجودگی میں ان کے بھائی اور بھائی کی عدم موجودگی میں حمزہ شہباز شریف ہی ن لیگ کی سٹریٹ پاور کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔ جہاں تک میاں نواز شریف کی وطن اور ان کی ملکی سیاست میں واپسی کا تعلق ہے تو اس پر سوالیہ نشان رہے گا کیونکہ انہوں نے حکومت سے رخصت ہونے کے بعد اور بالخصوص پاکستان سے باہر جا کر لندن میں بیٹھ کے قومی اداروں کے بارے میںجو زبان استعمال کی اور جس انداز میں گفتگو کی ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ ہر حال میں حکومت حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کی سیاست کا واحد مقصد ایوانِ وزیراعظم میں قیام ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ میاں صاحب کی بیرون وطن روانگی جن حالات میں ہوئی ہے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں ان پر جو الزامات و مقدمات ہیں وہ بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں انہیں عدالتوں کا سامنا کرنا ہے اور خود کو عدالتوں میں بے گناہ ثابت کرنا ہے۔ ایسے تو نہیں ہو سکتا کہ وہ بیک وقت ملک کے وزیراعظم بھی ہوں اور  ان پر کرپشن کے مقدمات بھی چل رہے ہوں، یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ انہیں تمام مقدمات سے بری کر دیا جائے۔ احتساب کے نظام کو غیر جانبدار ثابت کرنے کے لیے میاں نواز شریف کو مقدمات کا سامنا کرنا ہو گا۔ ان کے دور میں ملکی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کے ذمہ دار اگر وہ نہیں ہیں تو پھر کون ہے۔ میاں صاحب اور  ان کی صاحبزادی اب تک قومی اداروں کو متنازع بنانے اور نفرت پھیلانے میں ناکام رہے ہیں یا پھر وہ روزانہ کی لاحاصل مشق سے تھک گئے ہیں کیونکہ مسلسل اداروں کو متنازع بنانے کی بھرپقر مہم کے باوجود وہ ہدف حاصل نہیں کر سکے۔   یہی وجہ ہے کہ ان کی گفتگو میں تبدیلی آئی ہے۔ مریم بی بی نے محتاط گفتگو شروع کی ہے جبکہ اس بدلتے موسم میں مولانا فضل الرحمٰن کا لب و لہجہ بھی بدلا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ یہ ساری تبدیلیاں بلاوجہ تو نہیں ہیں۔
میاں حمزہ شہباز شریف کو جیل میں رہ کر اپنے ماضی کو بغور دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ وہ اس دوران معمول کی زندگی سے دور رہے۔ اب وہ واپس آئے ہیں دیکھنا یہ ہے وہ کس طرح کی سیاست کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ ویسے میاں شہباز شریف کے زیر اثر رہتے ہوئے انہوں نے ہمیشہ یہی سیکھا ہے کہ ملک میں موجود تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلا جائے، وہ تصادم اور ٹکراؤ کے بجائے سب کے ساتھ مل کر آگے بڑھنے کے فارمولے پر عمل کرتے ہیں۔ ایک سیاسی کارکن کے پاس جیل میں سوچنے کے لیے بہت وقت ہوتا ہے۔ وہ غلطیوں پر نگاہ دوڑا سکتا ہے وہ جائزہ لے سکتا ہے کہ کہاں اس سے غلطی ہوئی، کہاں اس نے زیادتی کی، کہاں اس نے اختیارات سے تجاوز کیا اور کہاں اس کے ساتھ زیادتی ہوئی، کہاں اس نے میرٹ کے بجائے پسند نا پسند کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کیے۔ مسلسل حکومت میں رہنے کے بعد انہیں جیل کے اس وقت نے اپنے فیصلوں پر غیر جانبدارانہ تجزیہ کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس حکمتِ عملی کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ میاں نواز شریف والا راستہ اختیار کرتے ہیں یا پھر اپنے والد میاں شہباز شریف کی طرح سب کو ساتھ لے کر آگے بڑھتے ہیں۔ ان کی حکمت عملی ہی ن لیگ کی قیادت کا مسئلہ بھی حل کر سکتی ہے۔
میاں شہباز شریف باہر آتے ہیں تو ن لیگ کی سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آئے گی، چودھری نثار علی خان کی بھی واپسی ہو سکتی ہے ان کے ساتھ ن لیگ کے پرانے لوگوں کی بھی واپسی ہو سکتے ہے۔ آئندہ چھ سے آٹھ ماہ ملکی سیاست کے لیے نہایت اہم ہیں۔ اس دوران بڑی سیاسی تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں۔ اکتوبر نومبر تک سیاسی جماعتوں کی صورت حال واضح ہو جائے گی۔ یہ بات تو طے ہے کہ ملک ہر وقت سیاسی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہو سکتا نہ ہی ہر وقت عوام کو بیکار سیاسی بحث پر چھوڑا جا سکتا ہے۔ پنجاب سینیٹ انتخابات میں ہونے والی مفاہمت و رضامندی نے یہ ضرور بتایا ہے کہ اگر سیاست دان اپنے کاموں کے لیے اتفاق رائے پیدا کر سکتے ہیں تو پھر انہیں عوامی فائدے کے لیے  ایک صفحے پر ضرور آنا چاہیے۔ چودھری پرویز الٰہی نے پنجاب میں ثابت کیا ہے کہ اگر تعمیری گفتگو کی جائے، سب کا خیال رکھا جائے تو معاملات بات چیت کے ذریعے بھی حل کیے جا سکتے ہیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن