نصر اللہ، پگاڑا، زرداری سیاسی گرو، پرویز الہی کا مفاہمتی کردار اہم
لاہور (تجزیہ۔ ندیم بسرا) ملک میں سیاسی مفاہمت کی باتیں تو تمام رہنمائوں کی جانب سے کی جاتی ہیں تو جب بات سیاسی جماعتوں میں مفاہمت اور توازن برقرار رکھنے کی ہو تو ملک کے چند سیاست دان ہی انگلیوں میں گنے جاسکتے ہیں جو ’’توڑ جوڑ ‘‘ اور ’’مفاہمت ‘‘ کے گرو مانے جاتے ہیں اور مفاہمت کی سیاست کے استاد کا درجہ رکھتے ہیں ۔ سیاسی پنڈت اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ ملک کی سیاست کا بڑا نام نوابزادہ نصراللہ خان تھا۔ موجودہ سیاسی لیڈرشپ میں بہت سارے ان کے سیاسی شاگرد ہیں اور بے شمار سیاست دانوں نے ان کے ہاتھ پر ’’سیاسی بیعت‘‘ کی ہوئی تھی۔ انہوں نے سیاست میں بہت مدبرانہ فیصلے کئے ہیں ۔ ان کے بعد ایک بڑا نام سید شاہ مردان شاہ ’’پیر پگاڑا ‘‘ کا بھی رہا ہے۔ کراچی کے ’’کنگری ہائوس‘‘ میں ماضی کے بے شمار سربراہان حکومت جاتے رہے ہیں اور اپنی حکومت کے بہت سے بگڑے مسائل کو ’’پیر پگاڑا‘‘ کی سیاسی سوچ، تدبیروں سے حل کراوتے رہے ہیں۔ اگر موجودہ حالات میں بات کریں تو آصف علی زرداری ایسے سیاست دان ہیں جو حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ہوں وہ بھی ’’جوڑ توڑ‘‘ اور ’’مفاہمت‘‘ کے معاملے میں ’’گرو‘‘ کا درجہ رکھتے ہیں اور اپنا حصہ اس انداز میں ڈالتے ہیں کہ سیاسی حریف بھی ان کی بصیرت کے قائل ہوجاتے ہیں۔ پی ڈی ایم کی تحریک میں آصف علی زرداری کا کردار بڑا نمایاں رہا۔ اس تحریک میں جب ’’مسلم لیگ ن ‘‘، ’’جے یو آئی ف‘‘، ’’بی این پی‘‘ اور’’اے این پی‘‘ سیاسی جماعتوں نے اپنے بیانیہ میں ایک خاص موقف اپنایا اور ایک خاص ’’ادارے‘‘ کو ’’ہدف تنقید‘‘ بنایا تو پیپلز پارٹی نے اپنا موقف اس سے قدرے مختلف رکھا اور اپنے موقف کو اس سے دور رکھا اور اسی وجہ سے باقی جماعتیں ان کو قائل نہیں کرسکیں اور اس کا نتیجہ کیا نکلا کہ پیپلز پارٹی نے اپنے موقف پر باقی جماعتوں کو بھی قائل کر لیا اور پی ڈی ایم کی لیڈرشپ نے اپنے بیانئے کو اس کے مطابق ڈھالا۔ اب جب بات کی جائے موجودہ سیاسی کشمکمش کی تو ہر طرف جہاں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر حملے کررہی تھیں چاہے ضمنی انتخابات ہو یا سینٹ کے الیکشن کی بات ہو تو یہی کہا جارہا تھا کہ اب سیاسی میدان میں ’’گھمسان کا رن‘‘ پڑے گا۔ ہوا کیا پنجاب میں گیارہ سینٹرز بلامقابلہ منتخب ہو گئے جسے کہتے ہیں ’’ہینگ لگے نہ پھٹکری‘‘۔ اس کے پیچھے جس سیاست دان کا کردار تھا وہ ہیں سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الہی جنہوں نے اپنی سیاسی فہم، سوچ کو استعمال کیا اور پنجاب سے سینٹ کے گیارہ امیدواروں کو بلامقابلہ منتخب کروادیا۔ حالانکہ پنجاب میں انہی دنوں ڈسکہ کا الیکشن اور اس میں سامنے آنے والی خامیاں ابھی تک زیر بحث ہیں اور اس دوران پنجاب سے گیارہ سینیٹرز کا بلامقابلہ انتخاب ہو جانا اور تمام امیدواروں سمیت پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کا ان سے مکمل راضی ہونا، ایک انہونی بات ہی لگتی ہے۔ اور اس کا کریڈٹ یقیناً چودھری پرویز الہی کو جاتا ہے۔ تو ملکی سیاست میں ’’مفاہمت‘‘ کا ایک بڑا نام اگر اب چودھری پرویز الہی کا سامنے آیا ہے تو یقیناً اس سے نہ صرف ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے ایک دوسرے کے ساتھ ’’بہتر رابطے‘‘ کی راہ ہموار ہوگی بلکہ سیاست میں کی جانے والی ’’طعنہ زنی‘‘ اور ’’دشنام طرازی‘‘ کا سلسلہ بھی رکے گا جس کا فائدہ یہ ہوگا کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف سڑکوں پر نکلنے کی بجائے اسمبلیوںمیں بیٹھ کر بہتر قانون سازی کرسکیں گی اورا سمبلی کے فورم پر مفاد عامہ زیر بحث آئے گا۔