فیصلہ خوش آئند،صدر مستعفی ہوں، دستورچالبازی سے بالا: اپوزیشن
اسلام آباد+ لاہور+ پشاور (وقائع نگار خصوصی+ سٹاف رپورٹر+ نمائندہ خصوصی+ خصوصی نامہ نگار+ بیورو رپورٹ) مولانا فضل الرحمن نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ صدر آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے کے بجائے جعلی وزیراعظم کے کہنے پر ریفرنس بھیج کر سپریم کورٹ کو ماورائے آئین دبائو میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صدر کا آرڈیننس اور ریفرنس دونوں آئین کے خلاف ہیں۔ اوپن بیلٹ آرڈیننس نے عدلیہ اور قوم کا وقت ضائع کیا ہے۔ ابھی تک محسوس ہو رہا تھا کہ حکومت کے سینے میں دل نہیں لیکن اب محسوس ہو رہا کہ ان کی آنکھوں میں شرم و حیا بھی نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد صدر کو خود مستعفی ہو جانا چاہئے۔ مریم نواز نے حکومت سے کہا ہے کہ ووٹ کی طاقت سے کیوں ڈرتے ہو۔ ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ دستور ووٹ چوروں کی چالبازیوں اور بدنیتی سے بالاتر ہے۔ اب کھسیانی بلی ٹیکنالوجی کا واویلا مچا رہی ہے۔ کوئی آر ٹی ایس کا ڈھکوسلہ اور دھند کی ٹیکنالوجی اب نہیں چلے گی۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ یہ فیصلہ دستور کے مطابق ہے اور اسے کسی کی ہار جیت نہیں سمجھنا چاہئے۔ اسفند یار ولی خان نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ جمہوریت کی جیت ہے۔ ہم پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا کام ہے جسے پی ٹی آئی بے توقیر کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماؤں فرحت اللہ بابر‘ سید نیئر حسین بخاری‘ سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر‘ سینیٹر مولا بخش چانڈیو‘ سینیٹر شیری رحمن‘ سردار لطیف خان کھوسہ اور شازی مری نے فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ فرحت اللہ بابر نے اس فیصلے کو قانون‘ انصاف اور آئین کی فتح قرار دیا ہے۔ شازیہ مری نے کہا ہے کہ سپریم کوٹ نے سینٹ انتخابات کے متعلق آئین پر عمل لازم قرار دیا ہے اور اعلیٰ عدلیہ نے واضع کر دیا کہ سینٹ الیکشن آئین کا حصہ ہیں اور آئین کے مطابق ہی ہونے چاہئیں۔ سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا ہے کہ لڑکھڑاتی حکومت کو سینٹ انتخابات سے قبل بڑی شکست ہوئی ہے۔ حکومت انتخابات سے بھاگنا چاہتی تھی مگر اسے راہ فرار نہیں ملی۔ سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ حکومت کی پارلیمان اور آئین کو بے توقیر کرنے کی کوشش ناکام ہوئی ہے۔ نیئر بخاری نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین اور قانون کی جیت ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے آئین کی بالادستی قائم ہوئی ہے۔ سینیٹر مولانا بخش چانڈیو نے کہا کہ جتنے مرضی ڈھول بجائیں مگر شکست ان کے نصیب میں لکھی جا چکی ہے۔