ایسا لگتا ہے ہم پاکستان نہیں گٹر میں رہتے ہیں: جسٹس فائز
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے فاضل جج جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے آج ہم پاکستان میں نہیں گٹر میں رہتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کیس فیصلے پر نظر ثانی درخواستوں کی سماعت براہ راست نشر کرنے سے متعلق درخواست پر سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی لارجر بنچ نے کی۔ سپریم کورٹ نے منیر اے ملک کی بیماری کے باعث عدم دستیابی کی درخواست پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو دلائل دینے کی اجازت دے دی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے مکالمے کے دوران ریمارکس دیئے کہ بعض اوقات ذاتی معاملات میں اچھا رویہ رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ وکیل سائل اور عدالت کے درمیان رابطہ کار ہوتا ہے۔ ہمیں بہت سے چیزوں پر رائے دینے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ججز کی ایک ڈیوٹی صبر اور تحمل کرنا بھی ہے۔ جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جہاں آپ کو محسوس ہو کہ میں حد پار کر رہا ہوں مجھے روکا جائے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے دلائل میں کہا کہ لندن کی جائیدادیں میرے جج بننے سے بھی پہلے کی ہیں۔ سپریم کورٹ کا جج بننے کے بعد میں نے کوئی جائیداد نہیں خریدی۔ 29 مئی کو ریفرنس کی خبر میڈیا پر آئی۔ پوری دنیا میں میرے خلاف پراپیگنڈا کیا گیا۔ مجھے اور میرے اہل خانہ کو بدنام کیا گیا۔ میرا کیریئر تو 65 سال کی عمر میں ختم ہوجائے گا لیکن شہرت قبر تک ساتھ چلے گی۔ میں نہیں چاہتا کہ میری شہرت پر حرف آئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ صحافیوں کو اسلام آباد سے اغوا کرلیا جاتا ہے۔ صحافیوں کے اغوا پر وزیراعظم کہتے ہیں مجھے کیا معلوم؟۔ صحافیوں پر تشدد ہوا کسی نے انکوائری تک نہیں کی۔ ذمہ داروں کا نام بتاؤں تو میرے خلاف ریفرنس آجائے گا۔ سانحہ مشرقی پاکستان پر بات کی جائے تو خاموش کرا دیا جاتا ہے۔ قائد اعظم اور میرے والد کی روح قبر میں تڑپ رہی ہوگی۔ لگتا ہے آج ہم پاکستان میں نہیں گٹر میں رہتے ہیں۔